منیر سامی
علومِ سیاست اور سماج کے مفکرین اکثر ایک جملہ استعمال کرتے ہیں کہ، ’ نگہبانو ں کی نگرانی کون کرے گا‘۔ یا Who will guard the guardians ۔۔ بعضوں کے خیال میں یہ جملہ قدیم رومی شاعر Juvenal کے ایک مصرعہ سے مستعار لیا گیا ہے۔ لیکن عام طور پر یہ سمجھا گیا ہے کہ اس کا تناظر افلا طون اور سقراط کی فکر اورمباحث ہیں جو یہ طے کرنا چاہتے تھے کہ شہریوں کو اربابِ اقتدار اور صاحبانِ قوت کی زیادتی سے کیسے محفوظ کیا جائے۔
جدید سیاسی اور سماجی فکر میں بھی ان لوگوں کی زیادتیوں کی نگرانی پر مباحث عام ہیں، جنہیں شہریوں کے جان و مال اور انسانی حقوق کے تحفط کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ان میں عام طور پر کسی بھی ریاست کے فوجی ، پولس والے، برسرِ اقتدار افراد،آمر ، اور اس قبیل کے دیگر گروہ شامل ہیں۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ جمہوری ممالک اور مہذب ریاستوں میں اس مسئلہ پرقابو پا لیا گیا ہے۔ اور یہ کہ اب صرف ترقی پذیر معاشروں ، نو زائیدہ جمہوریتوں، اور آمریتوں میں اس طرح کی زیادتیاں ہو تی ہیں۔
لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ دنیا کی معروف ترین جمہوریتوں میں بھی جن میں امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک شامل ہیں ، صورتِ حال کچھ اتنی بہتر نہیں ہے۔ یہاں بھی روز مرہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی زیادتیوں کا شور اٹھتا ہے۔ یہ زیادتیاں خود ان معاشروں کے پسماندہ اور غیر مراعات یافتہ طبقوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اور اکثر ان زیادتیوں کے خلاف انصاف نہیں ہوتا۔
حال ہی میں اس موضوع پر کینیڈا میں انسانی حقوق کے ایک اہم عمل پرست ’الوکؔ مکر جی ‘ نے ایک کتاب تصنیف کی ہے جس کا عنوان ہے: Excessive Force اور اس کا ذیلی عنوان ہے: ‘Toronto’ fight to reform city policing ۔ کینیڈا کے وفاق اور بعض صوبوں میں قانون نافذ کرنے والوں کی نگرانی او ر ان کی پالیسیوں پر نذرِ ثانی کے لیے نگراں شہری ادارے قائم کیئے گئے ہیں۔ الوکؔ مکر جی کینیڈا کے سب سے بڑے شہر ٹورونٹو کے ایسے ہی ایک ادارے Toronto Police Services Boardکے تقریباً گیارہ سال تک سربراہ رہے ، اور اب یہاں کی ایک معروف یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔
انہوں نے اس اہم کتاب میں جن موضوعات یا مسائل پر تبصرہ کیا ہے اور ان میں اصلاح کی رائے دی ہے، وہ نہ صرف ٹورونٹو بلکہ دنیا کے ہر بڑے شہر کے پالیسی سازوں کے لیئے اہم ہیں۔ ان موضوعات کی مختصر تفصیل یو ں ہے۔
نمبر ایک: پولیس کی طرف سے آتشیں اسلحہ اور جان لیوا قوت کا استعمال۔
نمبر دو: ذہنی طور پر بیمار لوگوں کے ساتھ پولیس کا سلوک۔
نمبر تین: غیر سفید فام شہریوں اور اولین باشندوں کے ساتھ پولیس کے تعلقات۔
نمبر چار: سارے ہی شہریوں کا پولیس پر عدم اعتماد، اس پولیس پر جس نے شہریوں کی حفاظت کا حلف اٹھایا ہے۔
نمبر پانچ: پولیس کے نظام پر مسلسل بڑھتے ہوئے اخراجات۔
نمبر چھ: قومی تحفظ اور دہشت گردی کے خلاف پولیس کا استعمال ، اور اس کے نتیجہ میں ایک محصور ریاست کا تصور پیدا ہونا۔
نمبر سات: پو لیس کے ادارے کے سربراہوں اور پولیس یونین کا سیاسی حدود میں داخل ہونا اور عوامی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنا۔
ان کی رائے ہے کہ یہ مسائل جن وجوہ سے ابھر ے ہیں ان کی وجوہ میں شامل عناصر یوں ہیں: ۔
’نیو لبر ل‘ سیاسی ایجنڈے کے زیرِ اثر حکومتی فیصلے، پولس ملازمین کی ثقافت اور ذہنیت کو ٹھیک سے نہ سمجھنا، انفرادی اور اجتماعی تعصبات (چاہے وہ دانستہ یا نادانستہ ہوں)، اورایک ایسا نظامِ احتساب جو عمومی طور پر صرف علامتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں ٹورونٹو میں قانون نافذ کرنے کا جو نظام موجود ہے وہ تقریباً ناکارہ اور قدیم ہے اور جو جدید حقیقتوں سے بعید ہے۔
انہوں نے رائے دی ہے کہ اس نظام کے نتیجہ میں ٹورونٹو میں قانون نافذ کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ پر تشدد قوت استعمال کی جاتی ہے اور اس کا شکار غیر متناسب تعدا د میں، معاشرے کے پسماندہ ، غیر مراعات یافتہ، اور غیر سفید فام شہری ، ہوتے ہیں۔
انہوں نے اس کتاب میں ان مسائل کو حل کرنے کی تفصیلی تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ کتاب کے آخر میں انہوں نے برطانیہ کے ایک سابق وزیر اعظم اور وزیرِ داخلہ سر رابرٹ پیلؔ کا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بارے میں ایک اصول بیان کیا ہے کہ’’قانون نافذ کرنے والوں کی کامیابی کا انحصار اس پر مبنی ہے کہ انہیں اپنی پالیسیوں ، عمل، اورطور طریقوں ، کے لیئے شہریوں کی مکمل قبولیت اور اعتماد حاصل ہو۔ ‘‘۔
اور یہ کہ قانون نافذ کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ نہ صرف یہ قبولیت اور اعتماد حاصل کریں بلکہ اسے مسلسل برقرار بھی رکھ سکیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس اصول پر قائم کرنا اور اس پر عمل کرنے پر مجبور کرنے کے لیئے بالارادہ اور مصمم سیاسی حکمت عملی اور فیصلے لازم ہیں ۔ ایسے فیصلے کرنا اور فوری کرنا ضروری ہیں۔
ہم اس کتاب کو ہر ملک اور ہر شہر میں قانون نافذ کرنے والوں کی صورتِ حال کا استعارہ گردانتے ہیں۔ ہمارے خیال میں معاشروں کی بہبود انسانی حقوق کے قیام کے لیئے ہر فکر مند شہری کو یہ کتاب ضرور پڑھنا چاہیے اور اس سے استفادہ کرنا چاہیئے۔
♦