برطانیہ سمیت یورپ میں مسلمان انتہا پسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے ردعمل میں مسلمان مخالف قوتیں زور پکڑ رہی ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ اگر وہ ہماری ثقافت اور رسوم رواج کا احترام نہیں کر سکتے تو انہیں ان کے ملک واپس بھیجا جائے۔ حالیہ سالوں یورپ میں مسلمانوں کی بنیاد پرستی کے جواب میں دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموں کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔
جرمنی اور سویڈن میں مساجد پر حملےہو چکے ہیں جبکہ برطانیہ میں بھی اسی قسم کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ یورپ میں مسلمان سیکولرازم کاناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کا سیاسی ایجنڈہ پرموٹ کرنا شروع کردیتے ہیں۔برطانیہ اور یورپ میں مسلمانوں کی کئی تنظیمیں یورپ کے رسوم ورواج سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہیں۔
حال ہی میں برطانیہ میں مختلف گھروں میں پھینکے جانے والے خطوط میں لوگوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں تو اس کے بدلے میں انہیں پوائنٹس دیے جائیں گے۔اس پرتشدد سلسلے میں پوائنس دینے کا انحصار نقصان کی نوعیت پر ہے۔
نامعلوم افراد کی طرف سے تقسیم کیے گئے ان خطوط میں تین اپریل کو کسی مسلمان کو نقصان پہنچانے کا دن قرار دیا گیا ہے۔ خط کے مطابق کسی مسجد کو جلانے کے مختلف پوائنٹس ہیں اور کسی مسلمان پر تیزاب پھینکنے کے مختلف۔
پوائنٹ سسٹم کے تحت کسی مسلمان کو زبانی کلامی گالیاں دینے پر دس پوائنٹ دیے جائیں گے اور کسی عورت کے اسکارف کو پھاڑنے یا کھینچنے پر پچیس پوائنٹ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ پوائنٹس مسلمانوں کے مقدس مقام مکہ پر حملہ کرنے کے ہیں اور یہ ڈھائی ہزار ہیں۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ ایسے افعال سے پوائنٹ حاصل کرنے پر کیا مراعات یا انعام دیا جائے گا۔
سفید کاغذوں پر لکھے گئے ایسے خطوط انگلستان کی چھ مختلف کمیونیٹیز میں پھینکے گئے ہیں۔ اس میں مشرقی انگلستان کا علاقہ بھی شامل ہے، جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ یہ خطوط زیادہ تر مسلم اکثریتی علاقے میں بانٹے گئے ہیں۔
یہ خطوط ایک ایسے وقت میں تقسیم کیے گئے ہیں، جب یورپ اور برطانیہ میں مسلم مخالف تحریکیں اور جذبات میں بتدریج اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ برطانیہ کے مقامی میڈیا کے مطابق ان خطوط کے بعد مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے جبکہ بہت سے مسلمان خاندان اپنے بچوں کے حوالے سے پریشان ہیں۔
لندن پولیس کے مطابق انہوں نے برطانوی شہریوں کو محتاط رہنے کا کہا ہے اور انسداد دہشت گردی کی پولیس نے اس حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ تاہم ابھی تک اس حوالے سے کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔
دریں اثناء برطانوی پارلیمان کے دو مسلمان قانون سازوں کو بھی مشتبہ پیکیج بھی بھیجے گئے ہیں، جس کے بعد پولیس نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
DW/News Desk