چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب مکمل ہوگیا۔ نتائج کے مطابق بلوچستان سے تعلق رکھنے والے محمد صادق سنجرانی ستاون ووٹ لیکر چیئرمین سینٹ منتخب ہوگئے، جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار سلیم
مانڈوی والاڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر براجمان ہوگئے۔ ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والانے ووٹ حاصل کیے۔ سلیم مانڈوی والا نے ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے باوجو د 54 ووٹ لیکر کامیابی کو اپنے سینے پر سجایا۔ا س انتخاب کی تکمیل کے ساتھ ہی ان عناصر کو شکست سے دوچار ہونا پڑا جنکی کوشش تھی کہ سینٹ کے انتخابات منعقد نہ ہوپائیں۔لیکن پاکستان کی جمہوری قوتوں نے اپنے اپنے انداز و رنگ میں کوشش کرکے سینٹ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بناکر ان انتخابات میں رخنے ڈالنے والوں کی سازشیں ناکام بنائیں۔
پیپلز پارٹی نے سینٹ کے چیئرمین کے لیے سابق چیئرمین رضاربانی کو متفقہ امیدوار بنانے مسلم لیگ نواز کی پیشکش کیوں قبول نہ کی؟ کہاجاتا ہے کہ رضاربانی سے آصف علی زرادری کو چند شکایات تھیں۔جن میں سے ایک یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کے موقعہ پر زرداری صاحب نے رضاربانی کو برسی کی تقریب میں شرکت کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے یہ کہہ کرکہ’’ وہ سینٹ چیئرمین ہیں اس لیے پیپلز پارٹی کی تقریب میں شریک ہونے سے قاصر ہوں‘‘ حالانکہ رضاربانی برسی کی تقریب سے ایک سے روز قبل بے نظیر بھٹو شہید کے مزار پر حاضری دے آئے تھے۔ اسی طرح کی چند اور چھوٹی موٹی شکایات بھی تھیں۔
زرداری صاحب دعوی کررہے تھے کہ کہ سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین پیپلز پارٹی کے منتخب ہوں گے، اس مقصدکے لیے انہوں نے سلیم مانڈوی والا کانام بھی فائنل کرلیا تھا۔جبکہ عمران خاں انتخابات سے قبل کہتے رہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ ان کی اکیس بائیس سالہ کرپشن، بدعنوانی لو ٹ مار کرنے والوں خلاف جدوجہد رائیگاں جائے گی۔انتخابات سے چند گھنٹوں کی دوری پر ایسا کیا ہوگیا کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی دونوں اپنے اپنے موقف سے دستبردار ہونے پر مجبورہوگئے۔
اس حوالے سے کہاجاتا ہے کہ عمران خاں نے ان لوگوں کی ہدایت پر اعلان کردیا کہ سینٹ کا چیئرمین بلوچستان سے ہونا چاہیے حالانکہ اس اعلان سے قبل عمران خاں یہ بھی بیان دے چکے تھے کہ انہوں نے اپنے تیرہ ارکان سینٹ وزیر اعلی بلوچستان کے حوالے کردیئے ہیں۔ لیکن وزیر اعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے عمران خاں کے بیان کی سیاہی خوشک ہونے سے پہلے اعلان کردیا کہ چیئرمین سینٹ کے امیدوار کا اعلان کریں گے۔ بس اس بیان نے عمران خاں کو اپنے بیان سے منحرف ہونے پر مجبور کیا اور یہ اعلان کردیا کہ چیئرمین سینٹ بلوچستان سے ہونا چاہیے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں کے اس بیان نے آصف علی زرداری کو اپنے کھیل میں تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کیا۔کیونکہ عمران خاں کے اس اعلان کے بعد وزیر اعلی بلوچستان نے بھی اعلان کیا کہ چیئرمین بلوچستان سے ہونا چاہیے ان حالات میں زرداری صاحب کو بدلی کے ساتھ اپنا امیدوار لانے کی بجائے صادق سنجرانی کو بطور چیئرمین قبول کرنا پڑا۔
یہ بھی اطلاعات زیر گردش ہیں کہ صادق سنجرانی کو بنیاد بناکر پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کو متحد کرنے میں انہیں قوتوں کا عمل دخل ہے جنہوں نے بلوچستان میں نواب ثناٗ اللہ زہری کی حکومت کے خاتمے اور نئی حکومت کو برسراقتدار لانے میں اہم کردارادا کیا تھا۔ انتخابی نتائج کے اعلان سے قبل تک یہ نظر آرہا تھا کہ مسلم لیگ کو برتری حاصل ہے لیکن نتائج نے سب کو حیرت میں مبتلا کردیاکہ جیت سنجرانی کا مقدر بنادی گئی۔
پولنگ کے دوران میڈیا پر خبر نشر ہوئی کہ جے یو آئی کے دو ارکان ایوان میں موجود نہیں اسی دوران سابق وزیر داخلہ رحمان ملک بھی ایوان سے باہر چلے گئے۔ مجھے اسی وقت شبہ ہوا کہ کچھ معاملات طے ہونے جا رہے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ چھوٹے گروپوں نے اپنا وزن عین وقت پراپوزیشن کے امیدوار کے پلڑے میں ڈالدیا ہوگا۔
جو بھی ہوا ،ہوچکا ،اب تمام فریقین کو ملکر اس ملک کے استحکام ،ترقی اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی کو اپنے طور طریقوں اور انداز سیاست پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ سینت چیئرمین کے انتخاب میں صادق سنجرانی کی کامیابی کو لوگ کسی اور کی کامیاب قرار دے رہے ہیں۔ اور وہ اس کامیابی کا سہرا زرداری صاحب کے سر سجانے کو آمادہ نہیں ۔
اس سارے کھیل میں اگر کسی کو نقصان ہوا ہے تو وہ پیپلز پارٹی اور آصف زرداری ہیں کیونکہ انہیں اپنے اعلان اور دعوے سے پیچھے ہٹنا پرا ۔
صدق دل سے حلف اٹھانے والے ارکان کے بارے میں شکوک و شبہات کیوں پیدا ہوتے ہیں، یہ سوال میں نے بہت سارے اپنے سنیئرز کے سامنے رکھا لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔ ان سطور کے لکھنے کے دوران میرے بیٹے نے مجھے ان سوالات کے جواب دے دیئے، بیٹے کا کہنا تھا کہ اصول،حصول اور وصول کا معاملہ ہوتا ہے۔میرے مطالبے پر مزید وضاخت کرتے ہوئے بتایا کہ مفادات کے حصول کے لیے اصول کی سیڑھی استعمال کی جاتی ہے عین انتخابات کی پولنگ کے دوران مفادات وسولی کویقینی بنایا جاتا ہے۔ یہ ماٹو ہے آجکل ہمارے سیاستدانوں کا۔۔۔ اس لیے لوگ ان پر اعتبار کرنے پر تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔
♦