زکریاورک ٹورنٹو
ممتا ز سرجن : یوحنا ابن مساویہ ، علی ابن سہل ربان طبری، محمد بن سعید تمیمی، علی ابن عباس مجوسی، زکریاالرازی، علی ابن عیسیٰ الکحال، عمار بن موصلی، ابن سینا، الزاھراوی، ابن نفیس، ابن زہر، منصور ابن محمد، عماد الدین منصور شیرازی ۔ خلیفہ ابن ابی المحاسن، عبد اللطیف بغدادی،
سرجری کی کتابیں: بقراط اور جالینوس کے تراجم از حنین ابن اسحق، کتاب الحاوی، کتاب المنصوری،کامل الصنعۃ، القانون فی الطب، الموجز، شرح القانون، عمدہ فی جوامع کتاب الاعضاء، تذکرۃالکحالین، نور العیون، کتاب العمدہ فی الجراحہ، المرشد فی الکحل، صنعت الجراحہ، کتاب التصریف، الداخرہ المرادیہ، مرشد، جراحیہ الخانیہ۔
عہد وسطیٰ میں طب کے موضوع پر زیب قرطاس کا جانے والی تمام کتابوں میں سرجری کا حوالہ ملتا ہے۔ یہ بات کہنا غلط ہے کہ مسلمان اطباء سرجری (علم تشریح ) سے ناواقف تھے۔ سرجری میں تذبذب کی وجہ معاد کا عقیدہ تھا اسلئے انسانی جسم کی ساخت کو پامال نہ کیا جائے۔1 فی الحقیقت مسلمان اطباء نے سرجری میں اہم کنٹری بیوشن کیں، پہلے سے موجود کتابوں میں غلطیوں کی اصلاح کی، اور خود نئی نئی دریافتیں کیں۔ ابن سینا نے کتاب القانون میں عہد قدیم کے اطباء کی کتابوں میں پائے جانیوالی تحریروں کو ایک جگہہ جمع کردیا۔ لاطینی میں لکھی جانیوالی اصل کتابیں تو مرور زمانہ سے آسودہ خاک ہوگئیں مگر عربی میں ان کے تراجم زندہ رہے۔ جیسا کہ پروفیسر براؤن کا کہنا ہے جالینوس(130-200) کی تشریح پر سات کتابیں ضائع ہوگئیں، مگر ان کے تراجم زمانے کی دست برد سے محفوظ رہے جو 1906میں ڈاکٹر سائمن کے جرمن تراجم کے ساتھ شائع ہوئے تھے 2۔
سرجری کیلئے عربی میں لفظ تشریح ہے جو کہ اناٹومی اور چیر پھاڑ (ڈائی سیکشن)دونوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ علم الجراحہ سے مراد زخموں کا علم ، بیمار اعضاء کا آپریشن، سرجیکل ٹریٹ منٹ اورسرجری کے آلات ہے ۔ سرجری کو عمل جراحیہ کہا جاتا ، جو شخص زخموں کا علاج کرتا وہ جراح کہلاتا ، اور ہڈیوں کے ماہر کو مجبر الاعضام کہا جاتا ، جبکہ معالج چشم الکحال کہلاتا ہے۔
میڈیکل رائٹرز نے اپنی تصانیف میں سرجری کیلئے الگ باب مختص کیا ہوتا تھا۔چنانچہ عرب میڈیسن کے اولین دور میں 133 کتابوں میں سرجری پر مقالات پائے گئے تھے جیسا کہ: کتاب التشریح لجالینوس، جوامع کتاب المنافع لجالینوس، کتاب فی حالات الاعضاء، کتاب فی تشریح آلات الغذا (تین مقالات)، فی کون الجنین (جالینوس اور بقراط کے اقوال پر مبنی)۔ القزوینی نے عجائبات عالم کا ذکر کرتے ہوئے عجائبات انسانی جسم پر بھی ایک باب باندھا تھا۔ امام فخر الدین رازی (1210ہیرات)جو معروف مفسر قرآن تھے انہوں نے کتاب التشریح من لراس الی الحلق میں انسانی جسم کی تخلیق، اس کے سٹرکچر میں پنہاں حکمت بیان کی تھی۔ ابن صدر الدین کا کہنا تھا کہ سرجری سے نابلد شخص خدا کا علم حاصل نہیں کر سکتا۔
یو حنا ابن مساویہ (م857)بغداد کے دور اولیں میں تمام طبیب ایرانی اور نصرانی تھے۔ابن مساویہ بغداد کی سائنس اکیڈیمی بیت الحکمہ کا ڈائرکٹر اور چار عباسی خلفاء کا شاہی طبیب تھا۔ اس نسٹورین فزیشن نے طب اور اناٹومی پر متعدد کتابیں تالیف کیں جن میں آنکھ کے عوارض پر داغ العین قابل ذکر ہے۔ اس کتاب میں اس نے 48 آپریشنز کا ذکر کرتے ہوئے موتیا بند کو نکالنے کا کا طریقہ بتایا۔ جب سرجری کیلئے مردہ انسانی جسم وہ حاصل نہ کر سکا تو اس نے بن مانس استعمال کئے جو کہ اس کو خلیفہ المعتصم (م42)کے حکم پر مہیا کئے گئے تھے۔ بغداد میں اس نے دجلہ کے کنارے پر واقع بیمارستان میں سر جیکل وارڈ تعمیر کروایا تھا۔۔ یوں اس نے جسم کے اندرونی اعضاء کی معلومات حاصل کی تھیں۔ اس نے سرجری پر ایک کتاب تالیف کی اور خلیفہ المامون (م833)کیلئے کتاب ترکیب خلق الانسان و اجزاۂ زیب قرطاس کی تھی۔
مسلمان سرجنز نے سب سے پہلے کان میں موجود تین مہین ہڈیوں کوبیان کیا تھا جو کان کے وسط میں پائی جاتی ہیں۔ یونانی ماہرین طب کو اس چیز کا علم نہیں تھا۔ جبرائیل ابن بختیشوع سوم (1006) دو عباسی خلفاء کا نسٹورین معالج تھا۔ ایران کے شہر شیرازمیں امیرعضددو الدولہ (م983) نے اس کو آنکھ میں موجود اعصاب کے متعلق سوال کیا جو اس نے ٹھیک بتلائے اور انعام میں اس کاوظیفہ مقرر کیا اور رہائش کیلئے مکان بھی فراہم کیا ۔
بغداد کے معروف فزیشن حنین ابن اسحق (م872) نے مختلف قسموں کے حصالحوں اور پھوڑوں کو بیان کیا تھا۔ اس نے قرنیہ کے ناسور (سرطان) کیلئے سرجری کا طریقہ بتایا۔معالجات چشم پردس مقالات پر مشتمل اس کی مفصل اور مستندتصنیف کتاب عشر مقالات العین سے یہ بات ظاہر ہوتی کہ وہ ایک ماہر سرجن تھا۔اس کتاب میں پہلی بار آنکھ کی اناٹومی کی ڈایاگرام دی گئی تھی۔ اس نے کہا کہ دماغ ہی اصل میں تصور یا ادراک اور ارادی حرکت کا منبع ہے ۔ حنین نے یونانی طبیب جالینوس کی سرجری پر لاطینی کتاب کا عربی میں ترجمہ کتاب جالینوس فی عمل التشریح کے نام سے کیا جس کا ۱۶ ویں صدی کا کتابت شدہ قلمی مسودہ میڈیکل ہسٹاریکل لائبر یری( ئیل یونیورسٹی کنٹکی کٹ، امریکہ) میں موجود ہے۔
موصل (عراق) کے مشہور طبیب احمد بن ابی اشعث (م975) نے معدے کی فزیالوجی ایک زند ہ شیر میں دیکھ کرکتاب القادی والمقتدی میں بیان کی جو اس نے اپریل 959 میں آرمینیا میں مکمل کی جس کا مسودہ برٹش میوزیم میں موجود ہے ۔فزیشن و مؤرخ ابن ابی اصیبعہ نے ۱۲۷۰ میں گیسٹرک فزیالوجی کے سیکشن کا حوالہ تاریخ طب پر اپنی کتاب عیون الانباء فی طبقات الاطباء میں دیا تھا۔ یوں احمد پہلا شخص تھا جس نے گیسٹرک فیزیالوجی کے تجربات شروع کئے ۔ اس کے900 سال بعد امریکن آرمی سرجن ولیم بیمونٹ1857)) نے ایسے تجربات کئے تھے۔
http://jima.imana.org/article/viewFile/5269/39_1-6
ثابت ابن قرۃ (991) نے بھی سرجری میں کمال حاصل کیا تھا جیسا کہ اس کی چند کتابوں سے ظاہر ہوتا ہے جوامع کتاب التشریح الرحم لجالینوس،جوامع کتاب لجالینوس فی مولودین، مقالہ فی صنعت کون الجنین، جوامع کتاب الاعضاء ، کتاب فی تشریح بعض الطیور۔
پرنس آف فزیشن حسین ابن سینا نے اپنی شاہکار کتاب القانون فی الطب میں لکھا ہے: جہاں تک جسم کے اعضاء اور ان کے فنکشن کا تعلق ہے یہ ضروری ہے کہ ان کا مطالعہ حس اور تشریح کے ذریعہ کیا جائے جبکہ وہ امور جن کو صرف تخیل میں لایا جاسکتا اور ان کو عقل کے ذریعہ ثابت کیا جا سکتا ، وہ بیماریاں اور ان کے اسباب اور ان کی علامات ہیں اور یہ کہ ان بیماریوں کوکم کیسے کیا جا سکتا اور صحت بحال کی جا سکتی۔3۔
قاضی ابن رشد القرطبی بھی سرجری کی تعلیم کا زبردست حامی و مؤید تھا۔ جیسا کہ اس کے درج ذیل قول سے ظاہر ہوتا ہے : جو بھی علم تشریح میں منہمک رہا ، اس کا خدا پرایمان پہلے سے زیادہ ہو گیا۔4 اسی طرح امام غزالیؒ نے فرمایا: جو شخص علم ہےئت اور علم تشریح سے بہرہ ور نہیں اس کا خداکے بارے میں علم ناقص ہے۔5 ۔امام غزالی نے اپنی خود نوشت سوانح منقض من الضلال میں انا ٹومی کی زور و شور سے حمایت فرمائی تھی۔ آپ نے فرمایا : نیچری وہ لوگ ہیں جو ہر وقت طبعی دنیا کے مطالعہ میں مصروف رہتے، وہ جانوروں اور نباتات میں پوشیدہ عجائبات کا مطالعہ کرتے، جانوروں کے اجسام کی تشریح میں مصروف رہتے اور اس کے ذریعہ خدائے برتر کے ڈیزائن اور ان میں حکمت کو جان کر ورطہ حیرت میں پڑجاتے ہیں۔6۔
جالینوس عرب، زکریاالرازی (م930)۔
ایرانی طبیب اورسائنسدان کی کتاب الحاوی کا شمار مایہ ناز طبی کتابوں میں ہو تا ہے جس کا دسواں مقالہ سرجری اور منافع الاعضاء پر مشتمل ہے۔ سرجری پر اس کی دیگر کتابیں یہ ہیں کتاب ہےئتہ الکبد، کتاب فی ہےئتہ العین، کتاب ہےئتہ القلب، کتاب ہےئتہ الصماخ ، کتاب الاعصاب، کتاب ہےئتہ المفاصل، کتاب فی منافع الاعضاء۔ کتاب فی کیفیت الابصار، کتاب فی علاج العین بالحدید الرازی کی عظیم الشان کتاب المنصوری دس جلدوں پر مشتمل تھی۔نویں جلد کا ترجمہ اطالوی مترجم جیرارڈ آف کریمونا (م1187)لاطینی میں نے کیا ۔ اس جلد میں ایک باب اناٹومی پر ہے جس میں جسم کے مختلف اعضاء کو بیان کیا گیا ہے بشمول سنسوری اور موٹر پارٹس کے۔ اس نے ریڑھ کی ہڈی کا تفصیل دی اور کہا کہ دماغ یا ریڑھ کی ہڈی کو چوٹ لگنے سے کسی عضو کے حصوں کا فالج ہوجاتا کیونکہ اس عضو کے نرو سپلائی کو نقصان پہنچتا ہے۔ فزیالوجی پر عبور رکھتے ہوئے اس نے کتاب الحاوی میں بیان کیا کہ دماغ اور اعصابی نظام عضلات کو چلاتے ہیں۔ اور یہ کہ اعصاب کے موٹر اور سینسوری فنکشن ہوتے ہیں۔ اس نے کھوپڑی کے سات ’’کارنیل نرو‘‘ اور ۳۱، اعصاب کی تفصیل دی۔
پروفیسر سید حسین نصر نے اپنی کتاب میں کتاب المنصوری سے” پانچویں با ب رگوں پر اور “چھٹے باب وریدوں پر ۱۴ ویں باب دل کے متعلق رازی کے اقتباسات دئے ہیں جن سے رازی کی دل کے امراض کے بارے میں قابلیت روز روشن کی طرح ثابت ہوجاتی گویا وہ ہمارے دور کا جلیل القدرکارڈیالوجسٹ ہے۔ (سائنس اینڈ سوی لائزیشن نیویارک 1968، صفحات 200-204) اسی طرح پروفیسر ظل الرحمن نے تاریخ علم تشریح میں قلب کی اناٹومی کا لاطینی سے ترجمہ دیا ہے ۔ (تاریخ علم تشریح صفحہ230) ۔
رازی کی کتاب المنصوری جو در حقیقت میڈیکل مینوئیل تھی یورپ کے کالجوں اور یو نیورسٹیوں میں مقبول عام ہوئی۔ اس نے کتاب میں گلا س ٹیوب کے ذریعہ کیٹارکٹ نکالنے کا واقعہ درج کیا۔ اسی طرح آنکھ میں آنسو پیداکرنے والی غدودکے ناسور کو داغنے کا طریقہ بتایا جو کہ اس فیلڈ میں اس کی جودت طبع کا مظہر ہے۔ یاد رہے کہ ڈچ فزیشن ویسائلیس جو اناٹومی پر معرکۃ الاراء کتاب’’ڈی فیبریکا‘‘ کا مصنف ہے اس کی گریجوایشن کا مقالہ کتاب المنصوری کے نویں باب کی تشریح و توضیح تھی جو لووین Louvainسے 1537میں شائع ہؤا تھا۔رازی کی اس کتاب میں ایسے ابواب بھی ہیں جن کا تعلق آنکھ کی اناٹومی اور بیماریوں سے ہے۔ اس نے مشاہدہ کے بعد کہا کہ ہوا میں موجود جراثیم متعدی بیماریاں پھیلاتے ہیں بشمول آنکھ کی سوزش کے۔وبائی بیماریوں میں اس نے جذام، جلد کی وبائی کھجلی، وبائی بخارکا ذکر کیا جو انسان مریضوں سے لے سکتا۔ اس نے کہابہتر ہے ان مریضوں سے گریز کیا جائے یا پھر ان کی جانب سے آنیوالی ہوا کے مخالف بیٹھا جائے۔7
often opthalmia infects by being looked at and often (the condition of) multiple evil ulcers (also) transferable.
Generally speaking in every illness which has decomposition and (bad) air, one should distance
oneself from the afflicted or sit upwind from them.
رازی ایکسپری مینٹل میڈیسن کا مجوز و محرک تھا جس نے علاج العین کیلئے سرجیکل پروسیجر بتائے۔ علاج العین پر اس کے مقالہ کا جرمن ترجمہ1900 میں شائع ہؤا تھا۔ اسی طرح کتاب الحاوی میں بھی ایک باب علاج العین پر ہے۔ رازی نے گلاؤکوما کے اسباب بیان کئے ۔ اس کے علاوہ اس نے چھوٹے چھوٹے کتابچے مختلف طبی موضوعات پر قلم بند کئے جیسے قولنج، گردو ں میں پتھری، ذیابیطس، مریضوں کیلئے غذا، جوڑوں کا درد، ایک گھنٹے میں اپنا علاج، طبی ضرب الامثال۔ کتاب التجارب میں اس نے ۹۰۰ مریضوں کی کیس رپورٹ بیان کیں۔ اس نے متعدی امراض پر دنیا کا سب سے پہلامقالہ رقم کیا تھا۔ اس کی کلینکل آبزرویشنز سے اس کاعلمی تبحر اور تخلیقیت ثابت ہوتی ہے۔فرنچ سکالر پی ڈی کوننگ نے منصوری، کتاب الملکی اور کتاب القانون کے سرجری کے ابواب کا فرنچ میں ترجمہ کیا جو لائیڈن سے1903میں شائع ہؤا، طبع ثانی فرانکفرٹ 1986۔ کتاب المنصوری کا ایک نسخ اور نستعلیق خط میں مسودہ جس کے اوپر 1667(۱۰۶۸ہجری) کی تاریخ درج ہے نیشنل لا ئبریری آف میڈیسن (میری لینڈ،امریکہ ) میں موجود ہے۔
رازی پہلا فزیشن تھا جس نے انسان کے جسم میں دائیں اور بائیں طرف اعصاب کو بیان کر کے واضح کیا کہ بعض اوقات دائیں جانب یہ دو کی تعداد میں بھی ہوتی ہیں۔ اس نے سب سے پہلے آنکھ کے پردے میں موجود ہدبی پٹھے کے افعال پر روشنی ڈالی جو عدسے کی صورت کو کنٹرول کرتا اور آنکھ کو آکسیجن اور غذائیت فراہم کرتا ہے۔ اس نے مرکری پر مبنی علاجوں کو بندروں پر آزما یا قبل اس کے ان کو انسانوں پرشروع کیا جاتا۔ اس نے کہا کہ سرطان اور جذام کے موذی امراض کے ضمن میں ایک ڈاکٹر صرف اتنا ہی کچھ کر سکتا۔8 ۔
وہ گلاؤکوما کی بناء پر آنکھوں کے نور سے محروم ہو گیا جو نزول الماء سے شروع ہوا، اور مکمل بصارت سے محرومی پر منتج ہوئی۔ کسی طبیب نے اس کی آنکھوں کا علاج کرنا چاہا ، رازی نے اس کو پوچھا آنکھ میں کتنے طبق ہوتے ہیں؟ جب وہ نہ بتا سکا تو رازی نے کہا میں کسی ایسے شخص سے علاج نہیں کروانا چاہتا جس کو آنکھ کی بنیادی تشریح کا بھی علم نہیں۔(آنکھ میں تین پرت ہوتے ) عہد وسطیٰ میں رازی کو طب میں اس کی مہارت اور اعلیٰ مرتبہ کے پیش نظر جالینوس العرب کا خطاب دیا گیا ۔پیرس یونیورسٹی کے میڈکل سکول کے بڑے ہال کی دیوار پر رازی اور ابن سینا کی پورٹریٹ آویزاں ہیں۔ اس کا قول تھا کہ علالت کی طبعی وجہ ہوتی جس کو سائنسی بنیادوں پر پرکھا جا سکتا ہے۔ بیماری خدا کی طرف سے عقوبت نہیں ہوتی ۔ وہ پہلا طبیب تھا جس نے بیان کیا کہ پردہ بصارت روشنی ملنے پر رد عمل کرتا ہے۔
اسی طرح وہ پہلا ڈاکٹر تھا جس نے پتلی کے سکڑنے اور پھیلنے کو بیان کیا یعنی روشنی میں پتلی پھیل جاتی اور اندھیرے میں سکڑ جاتی ہے۔ اس نے اپنی قابل ذکر تصنیف آن دی نیچر آف لائٹ میں اعلان کیا کہ آنکھوں سے روشنی کی شعاعیں نہیں خارج ہوتیں، بلکہ کسی چیز کو ٹکرا کر آنکھوں میں آتیں۔ یونانی حکماء کا دعویٰ بالکل غلط تھا۔
علی ابن عباس اور کیپلری سسٹم
علی ابن عباس (994ایران)پہلا فزیشن تھا جس نے انسانی جسم میں موجود (نظام شعری )خون کی باریک رگوں کے نظام کے وجود کا ابتدائی اوربنیادی تصورپیش کیا جو ہر عضو میں رگوں کا جال بناتیں اور ان میں خون، آکسیجن ، خوراک اور بیکار مادوں کا تبادلہ کرتی ہیں۔ یہ بات اس نے اپنی طبی شاہکار کتاب الکامل الصنعہ الطبیہ (کتاب الملکی ) میں پیش کی جب وہ دو مخالف حرکتوں انبساط اور انقباض جو کہ دل اور رگوں میں اور نظام تنفس کیامتعلق بیان کر رہا تھا۔ ۹ اس کی شاہکار تصنیف میں بیس مقالے تھے۔ کتاب کا دوسرا اور تیسر ا باب اناٹومی پر جبکہ انیسواں باب سرجری پر ہے۔یورپ کے میڈیکل سکولوں میں یہ صدیوں تک ٹیکسٹ بک آف سرجری کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔اس نے سب سے پہلے ثابت کیا کہ ولادت کے وقت بچہ بطن مادر سے خود بخود با ہر نہیں آتا، بلکہ رحم کے عضلات کا انقباض ’’کنٹریکشن‘‘ اس کو خارج کرنے کاباعث ہوتا ہے۔ یوں اس نے بقراط کے نظریہ ولادت کی تردید کی تھی۔
نیورو سائنس : علی عباس نے دماغ کی نیورو اناٹومی، نیورو بیالوجی، اور نیورو فزیالوجی بیان کی۔ وہ پہلا فزیشن تھا جس نے دماغ امراض پر بحث کی بشمول سلیپ سکنس، ہایپوکونڈریاس، کوما، مینن جائٹس، ورٹیگو، مرگی، عشق، نصف دھڑ کا فالج۔علی عباس کو سائیکو فزیالوجی اور سائیکو سو میٹک میڈیسن کا پا نئیر تسلیم کیا جاتا ہے۔اس نے بیان کیا کس طرح ایک مریض کی فزیالوجیکل اور سائیکو لاجیکل حالتیں دوسرے مریض کو متاثر کرتی ہیں۔
علی ابن عیسیٰ الکحال (1010)موتیا بند کی سرجری
عرب دنیا میں موتیا بند کا آپریشن گزشتہ ایک ہزار سال سے کیا جا رہا ہے۔ چونکہ مصر، عرب ممالک میں صحرا سے مٹی ،ریت بہت زیادہ آتی تھی اور گرمیاں بھی جوبن پر ہوتی تھیں اسلئے لو گ امراض چشم میں مبتلا رہتے تھے۔الکحال ’’آپتھوملوجسٹ‘‘ معزز پیشہ ور ہوتا تھا۔ عرب سرجن موتیا بند کے آپریشن کے ماہر مانے جاتے تھے۔ انہوں نے اس موضوع پر قابل ذکر کتابیں لکھیں۔ اس ضمن میں علی ابن عیسیٰ کحال کی تین جلدوں میں کتاب تذکرۃ الکحالین اس کی فہم و فراست، مطالعہ کی وسعت، قوت اجتہاد اور ، ذہن کی اپج کی آئینہ دار ہے۔امراض العین پر دنیا کی قدیم ترین کتاب کی پہلی جلدآنکھ کی اناٹومی اور فزیالوجی پر تھی۔ دوسری جلد ایسے امراض چشم پر جو باہر سے نظر آتے تھے۔تیسری جلد آنکھ کے پوشیدہ عوارض پر جن سے آنکھ کو نقصان پہنچتا ہے لیکن با ہر سے نظر نہیں آتیں۔ آنکھ کے آپریشن میں استعمال ہونیوالے آلات سرجری کی ڈایا گرامز دیں نیز ان کے تکنیکی الفاظ بھی دئے ہیں جیسے مقراض ، فتحاتr حربہ، حلقہ ،سنانیر، قمادین، ۔
کتاب میں 130، امراض العین کا علاج ان کی اناٹومیکل لوکیشن کے مطابق بتایا گیا تھا۔اس نے آنکھ کی اناٹومی کی ڈایاگرامز دیں خاص طور پر ۔ اس نے سیلان اشک کا علاج بتایا اور سب سے پہلے رگوں (جو سر اور دماغ کو خون پہنچاتیں)کی سوجن کو بیان کیا مگر اس کا کریڈٹ غلطی سے سر جوناتھن (18281501913)کو دیا جاتا ہے۔ آنکھ کے پپوٹے میں پھوڑے کی سرجری کیلئے اس نے it بتایا۔آنکھ کے پپوٹے پر نکلنے والی گوہانجی کیلئے گرم روٹی سے ٹکور کی جا تی تھی۔ جو اندھے پن کی بڑی وجہ ہے اس کیلئے سرجری سے کو نکال دیا جاتا تھا۔ قرنیا کے اوپر ٹیشو کا بڑھ جانا، آنکھ کا سرخ رہنا، خشک رہنا ، اس کا علاج بھی اس نے کیا تھا۔ تذکرۃ الکحالین کا انگلش ترجمہ 1936 میں کیا گیاجو شکاگو سے شائع ہؤا تھا اور کوئینز یونیورسٹی لا ئبریری کنگسٹن (کینیڈا)میں اس کا ایک نسخہ موجود ہے جس کا مطالعہ راقم کر چکا ہے۔ اصل عربی متن دائرۃ المعارف حیدرآباد سے 1966میں اور طبع ثانی دہلی سے 2008 میں منظر عام پر آچکا ہے۔لاطینی (1499) فرنچ(1903) اور جرمن (1904)میں بھی تراجم ہو چکے ہیں۔
عراق کا آئی سرجن عمار بن علی موصلی ( پید ائش 1010)موتیا بند کے آپریشن کا ماہر تھا۔ موتیا بند میں آنکھوں کی پتلی پر ایک باریک سا پردہ آجاتاہے ۔ اس نے موتیا بند کے آپریشن کیلئے ایک آب کشی والی پچکاری(سرنج) ایجادکی یعنی
a tubular metallic syringe with a hypodermic needle
یہ آلہ آنکھ کی سفیدہ چشم میں داخل کیا جاتا جو نزول الماء کو سکشن کے ذریعہ کھینچ لیتا تھا۔ یہ طریقہ وقت کے ساتھ بہتر ہوتاگیا مگر اس کی بنیادی ٹکنیک پرانی ہے۔سرنج سے سکشن کی یہ تکنیک اسلامی ممالک میں سرنج سے سکشن کی یہ تکنیک اسلامی ممالک میں مقبول عام ہوگئی مگر یورپ میں یہ نا معلوم رہی جب جیکوئس (1762)فرنچ ماہر چشم نے اس کو1747میں متعارف کرایا تھا۔ کتاب منتخب فی علم العین میں اس نے موتیا بند کے چھ آپریشن کی تفصیل دی اور آپٹک نیوٹریسکے کیسز بیان کئے۔ 48امراض چشم بیان کئے، متعدد کلینکل کیسز رقم کئے، اپنے مشاہدات بھی قلم بند کئے اور سرجری کے آلات کو بیان کیا۔ موتیا بند کی سرجری میں جو جدید آلات استعمال ہوتے وہ موصلی کے ایجاد کردہ آلات سے قدرے مشابہ ہیں۔ امریکی مؤرخ سائنس جارج سارٹن نے عمارموصلی کو تمام مسلمان ماہرین چشم میں سے سب سے ممتاز آئی سرجن قرار دیا ہے10
حوالہ جات
۔(1) ابن سینا کا کہنا تھا کہ یوم آخرت جسمانی نہیں ہوگا بلکہ جسم تولید او ر فساد( جنریشن اینڈ کرپشن )سے تعلق رکھتا ہے۔
۔(2) ای جی براؤن، عربین میڈیسن، اصل ایڈیشن ۱1921، نئی دہلی 2003 صفحہ144
۔(3) القانون فی الطب، فن نمبر ایک ، فصل دوم
۔(4)ابن ابی اصیبعہ، عیون الانباء جلد دوم صفحہ75
۔(5) سید حسین نصر، سائنس اینڈ سوی لائزیشن ، کیمبرج1968،صفحہ308
(6) Claude Field, The Confessions of al-Ghazali, London, page 25, 1909
۔(7) کتاب المنصوری، فرنچ ترجمہ باڈلین لائبریری ، مارش کولیکشن ،آکسفورڈ
(8) apnaorg.com/ Z. Virk. Muslim Contributions to Sciences
۔(9) ای جی براؤن، اسلامک میڈیسن، نظام الدین مارکیٹ، نئی دہلی 2003، صفحہ124، طبع ثانی
(10) جارج سارٹن، ہسٹری آف سائنس، بوسٹن 1924ء
2 Comments