تسمیہ عزیز بلوچ
کیا ہمیں معلوم ہے انسان کون ہے؟انسان وہ مخلوق ہے جس کو پروردگار نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے کیونکہ انسانوہ واحد جاندار ہے جس کو سوچنے سمجہنے کی صلاحیت عطا کی گئ۔مختصر یہ کہ انسان کے پاس شحور ہےجس کی وجہ سے باقی تمام جانداروں سے آگے ہے۔اسی طرح انسان کے حقوق بھی ہیں۔جس میں جان کی حقوق، سوچنے کی حقوق اور مذہبی حقوق وغیرہ شامل ہیں۔
اکیسویں21 ویں صدی جسے ہم سائنسی دور کہتے ہے اس میں بھی ہم کوئی تبدیلی نہ لا سکے۔ہر روز لوگوں کو سڑکوں پر ، کیمپوں میں اور مظاہرہ کرتے دیکھتے ہیں۔ جس کا مقصد انسانی حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔دنیا میں ایسا ایک بھی ملک نہیں جس میں انسانی حقوق کی پامالی نہ کی جارہی ہو۔جب میں صبح اٹھتی ہو تو کوئی نہ کوئی اپنے حقوق کے خاطر رو رہا ہوتا ہے۔
کوئی ماں اپنے گمشد ہ بیٹے کے لیے ، کوئی طالب علم مثبت تعلیمی نظام کیلیے ، کوئی روزگار کیلیے ایسے بہت سی مختلف مسائل پر احتجاج کررہے ہوتے ہیں۔ہر روز اپنے حقوق کے لئے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔۔۔“انسانی حقوق کی پامالی“۔۔۔ جواب ۔۔” بند کرو بند کرو“۔۔ دنیا میں مختلف طریقوں سے انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے۔۔روزگار کے طریقے سے، زیادتی سے، منفی تعلیمی نظام سے، پیاروں کی لاپتہ ہونے سے،ہر روز ٹارگٹ کلنگ سے، منشیات کے ذریعے سے اور مذہب کے نام پر۔ان تمام ہتھکنڈوں کے زریعے انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہیں۔
کوئی بھی قوم چاہے وہ سندھی ، بلوچ، پٹھان،پنجابی،سراہیکی وغیرہ ہو ۔ اس حقوقی پامالی سے محفوظ نہیں۔۔مذہب کے نام پر لوگوں کو سرعام قتل کیا جارہا ہے۔دھماکے کئے جارہے ہیں۔ہر طریقے سے ایک انسان دوسرے انسان کے حقوق کو چھین رہا ہے۔آج دنیا میں فلسطین، کردستان،ایران،امریکہ،افغانستان،پاکستان،چین وغیرہ ہر ملک دوسرے ملک کو اپنے مفاد کیلیے اسے اپنا غلام بنارہا ہے۔آج دنیا کی جنگ ذرائع کے حصول کے لیے ہیں۔ہر ملک دنیا کی منڈی میں اول نمبر پر ہونا چاہتا ہے۔جس کی وجہ سے آج عام لوگوں کی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے۔آج ہم مضبوط تعلیمی نظام سے محروم ہیں۔
غریب عوام منشیات میں غرق ہورہی ہے۔نشے نے لوگوں کی زندگی کا خاتمہ کیا ہے۔۔ہر روز جب میں نیوزپیپر پڑھتی ہو تو ایسا کوئی دن نہیں جس میں انسانی حقوق کی پامالی نہ کی جارہی ہو۔آج معاشرے میں ہر طرح کی برائیاں عام کر دی گئ ہیں چاہے وہ ذہنی ہو یا جسمانی ہر طرح سے انسان کو اذیت دی جارہی ہیں۔ہماری سوچنے کی صلاحیت ختم کردی گئ ہے۔۔انسانوں میں نشہ اور دیگر منفی رویے پیدا کئےگئے ہیں۔ انسانوں کو جانداروں میں سے سب سے عظیم مقام دیا گیا ہے مگر آج کے دور میں انسان کے تمام اندرونی جذبات نہ ہونے کے برابر ہے۔
اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے ایک جانور دوسرے جانور کی تکلیف کو سمجھ سکتا ہے مگر ایک انسان دوسرے انسان کی تکلیف کو نہیں سمجھ پاتا۔اب ایک انسان دوسرے کو اپنے مفاد کیلیے مار بھی سکتا ہیں۔اسی طرح ایک ملک دوسرے ملک کو اپنے مفاد کیلیے تباہ بھی کرسکتا ہے۔اسی مفادپرستی کی وجہ سے آج انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف کوئ بولنے والا نہیں ہے۔
مفاد پرستی کی وجہ سے ہم کبھی دوسرے کے بارے میں سوچ نہیں سکتے۔ آخر کب تک آوازیں آئے گی کہ “بند کرو بند کرو“۔ کب انسانوں میں دوبارہ شعور جنم لے گا؟اب کب کتابوں کو پڑھنے کے بعد اس پر عمل کیا جائے گا؟ آج اس پر سوچنا اور مفادپرستی کو ختم کرکے انسانی حقوق کی بارے میں سوچئے اور تبدیلی لائیے۔ اب اس نعرے کو غور سے سننا۔۔۔“انسانی حقوق کی پامالی“۔۔۔۔“بند کرو بند کرو“۔
♦