سجاد ظہیر سولنگی
عورت کے کمزور ہونے کی ایک وجہ د ہمارے سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کا جبر اور استعداد ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں خواتین جبر کا شکار ہیں۔ اہل سندھ میں خواتین کی حالتِ زار بھی کوئی مختلف نہیں ہے۔ ہم اپنے سماج پر نظر ڈالیں تو ایسے بہت سے واقعات کی کہانیاں ہمارے سامنے دکھائی دیتی ہیں۔ کچھ واقعات جو رپورٹ ہوتے ہیں ہیں ، ان کے عدالتیں بھی لگائی جاتی ہیں۔ لیکن کچھ واقعات ایسے بھی ہوا کرتے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوپاتے، جب کہ کچھ واقعات کی نوعیت اتنی گہری ہوتی ہے کہ وہ رپورٹ سے پہلے ہی دبا دیے جاتے ہیں۔
سنہ 2017 ء کے دوران سندھ بھر میں خواتین کو جنسی ہراساں کرنے، جنسی تشدد، اغوا اور قتل کے 785 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان میں اغوا کے 121، جلانے کے 15، زیادتی کے 40، کارو کاری کے 63 اور قتل کے 163 واقعات شامل ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جو اخبارات، انسانی حقوق اور میڈیا کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا کرتے ہیں ۔لیکن ایسے بہت سے واقعات جو فائیل ہوتے بھی ہیں اورکہیں کہیں فائیل نہیں بھی ہوتے۔ ان کوکوئی تلاش ہی نہیں کرپاتا۔
اپریل سال 2016 ء کے دوران جیکب آباد کے شہر میں ایک شوہر نے اپنی نو بیاہتا دلہن خانزادی لاشاری کو سہاگ رات میں ہی گلہ دباکر قتل کر ڈالا تھا۔ قاتل پکڑاپکڑا گیا تھا۔ شور مچا، کیس کا کیا بنا ؟ آج تک کچھ معلوم نہیں ہے۔یہ قصہ فقط وہی ختم نہیں ہو پاتا، کہ ایک عورت جو کہ شادی کی پہلی رات اپنے شوہر کے ہاتھوں میں محبتوں کے بجائے خود مقتولہ بنی اپنی زندگی کھو بیٹھی۔ قصہ سندھ یونی ورسٹی کی اس نائلہ رند کا بھی ہے۔جس کی لاش ہاسٹل کے کمر ے سے پنکھے میں لٹکی ہوئی ملی۔ یہ واقعہ پچھلے سال 2017 ء کے جنوری کے پہلے ہفتے میں پش آیا۔ جس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ کیونکہ یونیورسٹی بند تھی۔ پھر چھٹیوں کے دران اس طالبہ کا اپنے شہر (لاڑکانہ) سے ہاسٹل میں آنا اور ٹھہرنا۔ اس کے پیچھے کیا محرقات تھے؟۔ یہ بھی ایک بڑا سوال تھا کہ کچھ حلقوں نے اس پر جلد ہی اپنا فیصلہ یہ کہکر سنادیا کہ یہ خودکشی ہے! اس واقعہ کے بعد مختلف نقطہ نظر نے بہت سے اطراف کو بے نقاب کردیا تھا۔ انیس خاصخیلی نامی ایک شخص کو جوبدار کے طور پر گرفتار کرلیا گیا تھا۔مطلب یونی ورسٹی، ہاسٹل، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آزاد ٹھہرے اور ان کے سر سے مصیبت ہٹ گئی!
ایک دوسرا واقعہ ضلعہ دادو کے قریب گاؤں(جھانگارا۔ باجارا)میں اگست سال 2017 ء کے دوران پیش آیا۔ جس کا پس منظر دوستی نہ رکھنے پر ایک ایک غریب لڑکی تانیا خاصخیلی کو خانو نوہانی نامی شخص نے اس کے گھر میں گْھس کر پہلے اس کو اغوا کرنے کی کوشش کی، لیکن لڑکی کی مزاحمت پر اس کے گھر کے تمام افراد کے سامنے اسے قتل کردیا گیا۔ یہ واقعہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے حلقہ میں پیش آیا۔ اس واقع نے اہل سندھ میں بڑی سطح پر غم اور غصے کو جنم دیا۔ سماجی رابطے فیس بْک،موبائل اورٹیوٹر پر احتجاج رکارڈ ہوا۔ سندھ کے مختلف شہروں میں سماجی اور سیاسی تنظیموں نے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے ۔جوابدار کی گرفتاری عمل میں آئی۔
یہ سماج اور اس میں ہونے والے واقعات اپنی جگہ پر بہت بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ عورت جو کہ ایک زرعی سماج سے تعلق رکھتی ہے۔کھیتوں میں رہتی ہے۔جہاں میڈیا بھی پہنچنے سے دور ہے یا وہاں تک پہنچنے میں انہیں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جس کی بنا پر وہ واقعات رپورٹ نہیں ہو پاتے۔وہ قصے ہی دبا دیئے جاتے ہیں۔وہ خواتین جو مظلوم اور غریب طبقات سے تعلق رکھتی ہیں۔جن کے پاس میڈیا تو کیا شہر تک پہنچنا بھی ان کی پہنچ سے سے باہر ہے۔وہاں کے قصوں اور کہانیوں کو تراشا جائے تو وہاں انقلابی تحریکیں جنم لے سکتی ہی۔ جو ایک مضبوط ملک کی بنیاد بن سکتی ہیں۔مگر اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ہمارے قانون لاگو کرنے والے ادارے ایسی غریب خواتین کے واقعات کو جاگیرداروں، سرداروں ، قبائلی علاقوں او ر حدود کا ڈرامہ رچاکر کر اپنی جان چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔دیکھا جائے وہ ایک جھوٹی دلیل ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادار ے اپنی جان چھڑانے کے لیے ایسے قاتلوں کو بالواسطہ سپورٹ کر تیہیں، جن کی بناء پرایسے جوابداروں کو ایک اور موقع مل جاتا ہے۔اگرچہ جرائم کو نسلی اور قبائلی بنیادوں پر دیکھنا ہی ہے تو پھران عدالتوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔
ہمارا وہ عمل ایک عورت نہ بلکہ پسماندگی میں جکڑے ہوئے سماج میں بہت سی خواتین کی زندگیوں کو لے ڈوبے گا۔خواتین سے پیش آنے والے واقعات کوئی آج کے نہیں ہیں۔میری جانکاری کے مطابق مضموں میں جن واقعات کا میں نے ذکر کیا ہے۔وہ تمام واقعات خواتیں کے حوالے سے جتنے بھی بل منظور ہوئے ہیں، یہ تمام واقعات ان کے بعد پیش آئے ہیں۔ہم انہیں بڑے واقعات اس لیے شمار کرسکتے ہیں ، اوران پر سوچنے کی ضرورت ہے۔اور ایسے واقعات کے بعد سماجی طور پر خواتین کے سوال کو مزید سمجھنے اور اس پر سوال اٹھانے کی ضرورت ہے۔
اگر سماج کا جائزہ سماجیات کے کے نقطہ نگاہ سے لیا جائے تو،جاگیردارانہ یہ سماج ایک ایسا جبر ہے۔جہاں غریب عوام کے ساتھ بے شمار واقعات ایک دم سے منظرِ عام پر نظر نہیں آتے۔درمیانے طبقے کے لوگ دستکار، کارخانیدار محنت کش، کلرک اوم کم تنخواہ پر کام کرنے والے الگ تھلگ غریب خاندان ہیں۔ جو کہ بہت ہی مشکلات میں زندگی گزارتے ہیں۔ مشکل سے وہ اپنی گھر کی ضروریات پوری کرپاتے ہوں۔ ایسے سماج میں خواتین زیادہ استحصال کا شکار ہیں۔جو کہ غلامی کی زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے خاندانوں کو پال رہی ہیں۔
دیکھا جائے تو عورت سماج کی تبدیلی کی اہم ستون ہے۔دنیا کی عوامی بغاوتوں میں خواتین نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔خواتین نے اپنے جدوجہد سے لیکر اپنا لہودیکر بھی سماجی طبقاتی فرق کو مٹانے کے لیے مختلف تحاریک اور مورچوں پر لڑتی آ رہی ہیں۔ عورت ہمارے سماج میں مختلف طریقوں سے بہت جدید استحصالی جبری ہتھکنڈوں کا شکار ہے۔خواتین پھر بھی اپنے حقوق کے لیے اپنی آواز بلند کرتی آرہی ہیں۔عورت بہت سے محاذوں پر اپنی لڑائی جاری رکھنے والے اصولوں پرآ ج بھی قائم ہے ۔تاریخ میں خواتیں جدوجہد کی بہت بڑی مثالیں موجود ہیں۔ان پر لکھنے اور ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
خواتین کے واقعات کا تجزیہ کیاجائے تو، خواتین کے ساتھ ہونے والی مختلف زیادتیوں کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں، اخبارات ،سماجی اداروں اور تھانوں کے روز نامچوں کا جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوجاتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سال 2008 ء کے بعد قائم ہونے والی جمہوری حکومت کے وقت مقدمات کی تعداد 2000 تھی۔ جس میںآگے چل کر اِضافہ ہوا، 2400 کیس رجسٹرہوئے۔2009 ء میں ان کی تعداد 2620،پر پہنچی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی عوامی حکومت میں بھی خواتین قتل ہوتی رہی۔
سال 2010 ء میں صرف غیرت کے نام پر 433 خواتین کو قتل کیا گیا، اور خواتین پر تشدد کے حوالے سے اسی سال 2838 واقعات رجسٹرڈ ہوئے۔ایسی مقتول خواتین میں بہت سی نابالغ اور ناسمجھ لڑکیاں اور بچیاں بھی شامل تھی۔ 2012 ء میں 316 ، 2013ء میں 121 خواتین کو قتل کیا گیا۔ سال 2014ء ہو یا 2015 ء خواتیں پر تشدد کے واقعات جاری رہے۔ 2016 ء میں انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق 280 سے زیادہ خواتین کو قتل کیا گیا۔سماج میں ہونے والے ایسے واقعات نے خواتین میں ایک ڈر کی کیفیت کو جنم دیا۔
اس تمام کے بعد سماج میں عورت اپنا کردار کرنے کے لیے جب بھی باہر نکلی ہے۔اسے اسی روایتی ڈر اور خوف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔جس کی وجہ سے وہ اپنا کردار نبھانے سے سے پہلے ضرور سوچتی ہے۔عورت نے جب بھی اپنا انقلابی فریضہ ادا کیا ہے، اس کے سامنے معاشرتی رکاوٹیں پہاڑ بن کر سامنے آئی ہیں۔ مگر پھر بھی باقی صوبوں پیش نظرسندھ کی عورت اپنے وجود میں سب سے زیادہ لڑتی رہی ہے۔آج بھی سندھ کے مختلف شہروں میں خواتین سیاسی، سماجی اور ادبی مورچوں پر جدوجہد کرتی آرہی ہیں۔خواتین نے ہمیشہ بھرپور کردار ادا کیا ہے۔خواتین جدوجہد کی ایک الگ حیثیت ہے۔اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ان کو مساوی حقوق دینے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی فرد کو کسی دوسرے فرد کو تکلیف پہنچانے کا کوئی حق نہیں ہے۔خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور اس کے لیے بہترین قانون لائے جائیں۔
پچھلے دو تین سالوں پر نظر دوڑائی جائے تو خواتیں پر ہونے والے تشدد کے واقعات میں مزید تیزی آئی ہے۔ قانون لاگو کرنے والے ادارے صرف کاروائی تک محدود ہیں۔چنانچہ اس پر عملی قدم اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔خواتین کے ساتھ ہونے والا استحصال آج کی عورت کو ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔خواتین پر تشدد اور جہالت پر مبنی رسومات پر ہونے والی پی ایچ ڈیز کے تھیسز اور اسمبلی کے بلوں کی کیا حیثیت ہے؟ جب عورت پر ظلم روز و شب میں بڑھتا جارہا ہو۔
آج یہ سوال اہم ہے کہ خواتین کی تحریک اور جدوجہد کو مزید مضبوط بنانا پڑیگا۔ خواتین کو گھریلو کام کاج کی مشین بنانے کے بجائے انہیں نظریاتی، انقلابی اور سیاسی بناکر دنیا کی تعمیر اور تبدیلی کے کردار میں انہیں شامل کیا جائے۔ پسماندہ سماج کی آزادی اور نجات عورت کی ٓزادی سے جڑی ہوئی ہے ،جو کہ ایک عوامی انقلابی تبدیلی کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی ہے، اور اس تمام کو بدلنے اور تبدیلی کے لیے ایک اشتراکی انقلاب کی ضرورت ہے،جو پسے ہوئے طبقات اورمحکوم خواتین کی جدوجہد کے بغیر ناممکن ہے۔آئیے اس سماج کو بدلنے کے لیئے خواتین کو شانہ بشانہ لیکر چلیں۔
♥