ارشد بٹ
ملک میں ہر وقت اداروں کے درمیان ٹکراو اور محاذ آرائی کا چرچا رہتا ہے۔ افلاطونی تجزیہ کار چیخ چیخ کر نصیحتوں پر نصیحتیں کرتے رہتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز، وفاقی حکومت اور حکومتی جماعت کو ریاستی اداروں سے محاذ آرائی کی پالیسی اختیار کرنے سے پر ہیز کرنا چاہے۔ کیونکہ ایسی پالیسی جمہوریت کو ڈی ریل کر سکتی ہے۔
الیکٹرونک میڈیا کے مباحثے اور پرنٹ میڈیا کے تجزئے ایسے انتباہ سےبھرے ہوتے ہیں کہ محاذ آرائی بلآخر فوج کے اقتدار کا راستہ ہموار کرتی ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز پر ریاستی اداروں خصوصا عدلیہ اور عسکری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کشمکش کو بڑھانے کے الزامات کی بوچھاڑہوتی رہتی ہے۔ آصف زرداری اور عمران خان بھی نواز شریف اور مریم نواز پر ریاستی اداروں سے محاذ ارائی بڑھانے کے الزامات لگانے میں پیش پیش ہیں۔
منتخب حکمرانوں پر ریاستی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کے الزامات کی ایک طویل فہرست ہے۔ جس میں دروغ گوئی، مکاری، سچے اور مسخ شدہ حقائق، بیرونی طاقتوں کی کاسہ لیسی اور سازشوں سے مرثہ کئی ظاہری اور پوشیدہ داستانیں مرقوم ہیں۔
میاں صاحب نے اقتدار میں آنے کے بعد خارجہ اور قومی سلامتی کے امور پر جمہوری اداروں کی بالادستی قائم کرنے کی بجائے یہ معاملات اسٹبلشمنٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دئے۔ بھارت اور افغانستان سے مذاکرات میں پیش رفت نہ کر سکے اور اسٹبلشمنٹ کے پسندیدہ سابق جنرل کو قومی سلامتی امور کا چارج دے دیا۔
داخلہ امور بھی اسٹبلشمنٹ کے چہتے چوہدری ”بروٹس” کے سپرد رہے۔ اسٹبلشمنٹ کے دباؤ پر آصف زرداری سے طے شدہ ملاقات کو یک طرفہ منسوخ کرنے، مشاہد اللہ خان، پرویز رشید اور نونہال ہاشمی کی اسٹبلشمنٹ کی دہلیز پر قربانیاں میاں نواز شریف کی مسلسل پسپائی کی تاریخ کا نمایاں حصہ ہے۔
سنہ 2014 کے دھرنے کے دوران پارلیمنٹ میں سیاسی قوتوں نے نواز حکومت کو سہارا دیا۔ بعد ازاں مسلسل پسپائی کی پالیسی نے ریاستی نظام پر اسٹبلشمنٹ کی گرفت کو مزید مظبوط کر دیا۔ بلآخر ریاستی نظام کی قربان گاہ پر نواز شریف کو بھی قربان ہو نا پڑا۔
اسٹبلشمنٹ کے دلارے خاقان عباسی کو وزارت عظمیٰ کی مسند پر بٹھا کر اور شہباز شریف کو مسلم لیگ ن کا صدر بنا کر نواز سریف نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کے دروازے کھلے رکھنے کا عندیہ دیا۔ خاقان عباسی اور شہباز شریف بڑی مہارت سے میاں نواز اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ شہباز شریف کی عسکری قیادت اور خاقان عباسی کی چیف جسٹس سے ملاقاتیں، نواز لیگ کی پالیسی اور نواز شریف کے مستقبل کا تعین کرنے کی کوششوں کا حصہ کہی جا سکتی ہیں۔
وزارت عظمیٰ کے دوران نواز شریف نے اسٹبلشمنٹ سے ٹکراو اور محاذ آرائی کب اور کیسے شروع کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ محاذ آرائی کی کیفیت وہ قوتیں پیدا کرتی ہیں جو پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم نہیں کرتیں، آئین اور قانون کی پاسداری نہیں کرتیں، ووٹ کی حرمت پامال کرتی ہیں، آئینی حدود سے تجاوز کر کے حکومتی اور سیاسی امور میں مداخلت کرتی ہیں۔
میاں نواز شریف اور مریم نواز کی عدلیہ کے گذشتہ اور متوقع فیصلوں پر تنقید اور سیاسی موقف کو دفاعی مزاحمتی میکانزم سے تعبیر کرنا بہتر ہو گا۔ ان کا یہ موقف عسکری اسٹبلشمنٹ کے لئے قطعا پریشانی کا باعث نہیں بنتا۔
میاں اور مریم کی عدلیہ کے ساتھ آنکھ مچولی مجوزہ انتخابات تک چلتی رہے گی۔ میاں نواز شریف کو یقین ہے کہ انکی دفاعی مزاحمت نے نہ صرف انکی عوامی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے بلکہ وہ نواز لیگ کو بھی بچانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اور یہ حکمت عملی نواز لیگ کو آیندہ الیکشن میں کامیابی سے ہمکنار کر ے گی۔
نواز شریفہ ہمیشہ کے لئے نااہل ہو چکے ہیں یا صرف ایک محدود عرصہ تک نااہل ہوئے ہیں۔ اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔ پانامہ مقدمہ کی پٹاری سے کیا فیصلہ برآمد ہو گا اور میاں باعزت بری ہوں گے یا جیل یاترا جائیں گئے۔ دیکھتے ہیں نواز شریف اور مریم نواز کی دفاعی مزاحمت، شہباز شریف اور خاقان عباسی کی مفاہمتی حکمت عملی کیا رنگ لاتی ہے۔
♥
One Comment