سوات میں ان دنوں پاکستان کا دورہ کرنے والی نوبل امن انعام یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی برسوں بعد ہفتہ اکتیس مارچ کو واپس اپنے آبائی شہر سوات پہنچ گئیں، جہاں قریب چھ برس قبل پاکستانی طالبان نے ایک حملے میں انہیں زخمی کر دیا تھا۔
مینگورہ سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ملالہ یوسفزئی کو 2012ء میں سوات ہی میں تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں نے ایک مسلح حملے کے دوران سر میں گولی مار کر زخمی کر دیا تھا اور اس حملے کے چند روز بعد پاکستان سے علاج کے لیے برطانیہ رخصتی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ملالہ یوسفزئی واپس اپنے آبائی شہر پہنچی ہیں۔ ملالہ ان دنوں پاکستان کے چار روزہ دورے پر ہیں۔
ملالہ کو، جو پاکستان سے اپنی رخصتی اور پھر بعد میں نوبل امن انعام پانے کے بعد پہلی بار چند دنوں کے لیے پاکستان لوٹی ہیں، اکتیس مارچ کو ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے سوات پہنچایا گیا۔ ان کے وادی سوات کے اس دورے کا مقامی باشندوں کی اکثریت بڑی شدت سے انتظار کر رہی تھی جبکہ باقی ماندہ پاکستان کی طرح سوات میں بھی کئی افراد نہ صرف ملالہ یوسفزئی پر تنقید کرتے دکھائی دیے بلکہ اس دوران پاکستانی معاشرے کے ایک حصے میں ملالہ کے خلاف پائی جانے والی سوچ ہی کے تحت، لڑکیوں کے لیے تعلیم کے بنیادی حق کی وکالت کرنے والی اس نوجوان طالبہ کی حب الوطنی پر ایک بار پھر تنقید بھی کی گئی۔
پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت ملالہ یوسفزئی کو ہمت، بہادری اور پاکستانی معاشرے کے اجتماعی ضمیر کی علامت قرار دیتے ہوئے انہیں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، جس کا کئی دیگر شواہد کے علاوہ ایک ثبوت انہیں دیا جانے والا امن کا نوبل انعام بھی ہے۔
تاہم پاکستانی طالبان کے بظاہر یا در پردہ حامیوں یا پھر ملک میں افواہوں کی صورت میں گردش کرنے والے سازشی نظریات پر یقین کر لینے والے عام شہریوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی اقلیت ملالہ یوسفزئی پر تنقید کرتے ہوئے انہیں اپنے طور پر ’مغربی دنیا کی ایجنٹ‘ بھی قرار دیتی ہے۔ اسی لیے ملالہ کی سوات واپسی پر جہاں عوام کی طرف سے دل کھول کر خوشی کا اظہار کیا گیا، وہیں چند حلقوں نے ہمیشہ کی طرح اس موقع کو ملالہ پر تنقید کے لیے استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔
ملالہ کی سوات آمد پر تیسری جماعت کی ایک مقامی طالبہ ارفہ اختر نے روئٹرز کو بتایا، ’’مجھے بہت خوشی ہے کہ میں اسی اسکول میں پڑھتی ہوں جہاں ملالہ نے تعلیم حاصل کی تھی۔ میں بھی ملالہ ہوں اور میں ملالہ کے مشن میں اس کے ساتھ ہوں۔‘‘
اس موقع پر سوات کے ایک 66 سالہ رہائشی برکت علی نے روئٹرز کو بتایا کہ انہیں ابھی تک یاد ہے کہ کس طرح ایک چھوٹی بچی کے طور پر وہ مینگورہ میں اس ملالہ کو اپنی گود میں اٹھا لیا کرتے تھے جو آج ایک بیس سالہ لڑکی ہے اور جسے اس کی ہمت کے اعتراف میں نوبل امن انعام بھی دیا جا چکا ہے۔
برکت علی نے کہا، ’’مجھے ملالہ کی اس جدوجہد پر فخر ہے جو وہ لڑکیوں کے تعلیم کے بنیادی حق کے لیے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی طرح جیسے مجھے اس بات پر بھی فخر ہے کہ دس سال پہلے جب پاکستانی طالبان نے مجھ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ میں اپنے بیٹے کو ایک جہادی کے طور پر ان کی صفوں میں بھرتی کرا دوں، تو میں نے صاف انکار کر دیا تھا۔‘‘
ملالہ یوسف زئی تقریباً چھ سال بعد تلواروں کی چھاؤں میں پاکستان تشریف لائی ہیں۔ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال اتنی اچھی ہے کہ بندوقوں کے سائے میں کرکٹ میچ کا انعقاد ہوتا ہے اور وزیراعظم کو نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زائی کو اپنے گھر جانے کے لیے پاک فوج سے سیکیورٹی لینی پڑتی ہے۔ سوشل میڈیا پر عاطف توقیر نے درست کہا ہے کہ
جس روز ملالہ اور ملالہ جیسے دیگر افراد نے پاکستان میں خود کو اتنا محفوظ محسوس کرنا شروع کر دیا جتنااس وقت حافظ سعید، مولوی عزیزاور احسان اللہ احسان طرز کے لوگ ہیں، سمجھ لیجیے اس روز دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ترقی سے نہیں روک سکے گی۔
DW/News Desk
♦
One Comment