رزاق کھٹی
لگ بھگ تین دھائیوں کی کا قصہ ہے، جب پاکستان کے لوگ دو مختلف قسم کی مسلمان نظریاتی فکر میں تقسیم ہوگئے تھے، ان میں سے دو قافلوں نےتو اپنے اپنے سورماؤں اور بدمعاشوں کا تعین کرلیا ،لیکن ایک قافلے کا حال اب بھی چوک پر کھڑے اس شخص جیسا ہے جو بے شعوری کے بڑھاپے میں لٹ جائے اور کچھ نہ کر پائے۔ اور اسی بے سر و پا قافلے نے اپنی حیثیت کو نہیں پہچانا۔ اسے تعلیم سے محروم رکھا گیا، روٹی ان سے چاند کے فاصلے جتنی دور رہی۔ انہوں نے زندگی کو غربت سمجھا۔ پیدا ہوئے،جیئے اور مرگئے، ان کی زندگی ان تین الفاظ کے گرد گھومتی رہی ہے۔
ان ہی دھائیوں میں اسامہ بن لادن کو ایک ہیرو بنا کر ابھاراگیا، اسامہ کی تصویر والی ٹی شرٹس عام تھیں، لوگوں نے اپنے پید اہونے والے بیٹوں کے نام اسامہ کی شخصیت سے متاثر ہوکر رکھے۔
نائین الیون کے بعد تو جیسے اسامہ میٹرنٹی ہوم میں جا گھسا، جو بچہ پیدا ہوتا وہ اسامہ بن جاتا۔ اسامہ کو دیومالائی کردار بنادیا گیا۔ میڈیا اس کام میں آگے آگے تھا، لوگوں کی ذہن سازی کی گئی۔ پاکستان کی آئینی ریاست پر قبضے کی خواہش رکھنے والوں کیلئے نرم گوشہ پیدا کیا گیا، پڑھے لکھے اور اختلاف کرنے والوں کی شامت آگئی، ستائے ہوئے لوگ شفا کیلئے مزاروں پر پناہ لینے جاتے تو ان سے یہ سہارا بھی چھیننے کی کوشش کی گئی۔
بے کف و پا لوگوں کو بارود میں جلادیا گیا۔ لیکن ہمارے ہیروز کہتے رہے کہ یہ ناراض لوگ ہیں ، انہیں منالو، اور قومی دھارا میں شامل کرلو۔ جن کے ہاتھ میں بندوق تھی سبھی ان کے وکیل تھے۔
پاکستان کی ایک اچھائی یہ رہی ہے کہ اس کے روشن چہروں نے خود کو داغدار کرنے نہیں دیا، اسی جستجو کی ،اسے ایک بڑی قیمت بھی ادا کرنی پڑی۔ آج بھی دنیا بھر میں اس کا روشن چہرہ فاطمہ جناح، بے نظیر بھٹو، فاطمہ بھٹو، عاصمہ جہانگیر ،فہمیدہ مرزا، شیری رحمان ،شیریں مزاری اور اس طرح کی دیگر خواتین ہیں۔
لیکن جب سوات کی ایک بارہ سالہ بچی ملالا پر حملہ ہوا تو ان دنوں وہ شہرت کی سب سے پہلی سیڑھی پر تھیں۔ وہ گل مکئی کے نام سے بی بی سی پر ایک ڈائری لکھا کرتی تھیں، وہ سوات میں بچیوں کی تعلیم کی حمایت میں سب سے موثر آواز تھیں۔ سوات پر قابض شدت پسندوں کو یہ بات کسی طور قبول نہیں تھی۔ ایک معصوم سی بچی کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔
ملالہ اپنے اسکول سے واپس آرہی تھیں تو راستے میں سوزوکی پک اپ کو روک کر ایک شخص نے ملالہ سے ہی پوچھا کہ ملالا کون ہے؟ جب ملالا نے اسے بتایا کہ وہ ہی ملالہ ہے تو اسے تین گولیاں ماری گئیں۔ اس حملے میں اس کی دوسہلیاں بھی زخمی ہوئیں۔ قاتل اپنا کام مکمل کر فرار ہوگیا۔ اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلی گئی۔
آصف زرداری اور آرمی چیگ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ذاتی کوششوں سے ملالہ کو بذریعہ ہیلی پنڈی کے ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا، کچھ روز بعد اسے برطانیہ منتقل کردیا گیا، اس کی بچ جانے کے آثار نمایاں ہونے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دنیا کی تاریخ کی سب سے زیادہ شہرت یافتہ بچی بن گئی۔ اس کے حصے میں وہ عزت آئی جو دنیا میں کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔
پاکستان کا روشن چہرہ اپنی بچ جانے والی بہادر بچی پر فخر کر رہا تھا، روشنی کے طرف دار لوگ اس کے ساتھ کھڑے تھے۔
ساڑھے پانچ سال بعد جب ملالہ اپنے وطن واپس آئی تو ایک بار پھر وہی باتیں شروع کردی گئیں ہیں جو اس پر حملہ کرنے کے وقت کی گئیں تھیں ، اسے ایجنٹ بھی کہا جارہا ہے اور ڈارمہ باز بھی ۔جو لوگ اسے روشنی کی علامت کہتے ہیں وہ بھی ایجنٹ ٹھہرے۔ کیونکہ وہ بچیوں کی تعلیم کی بات کرتی ہے، وہ صحت و تعلیم اور اقتصادیات کو سیاست سے الگ کرنے کی بات کرتی ہے، انتہائی کم عمر میں اس کے مشاہدے اور قدآور شخصیات کی صحبت نے اس کی دانش میں میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔
ملالہ دنیا بھر میں پاکستان کی علامت ہے، جو بندوق والے شدت پسندوں کے سامنے بچیوں کی تعلیم کی بات کرتی ہے، وہ شدت پسند جہادیوں کی کاروایوں سے براہ راست متاثر ہوئی تھی، اس کے پورے علاقے میں بچیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑادیا گیا تھا۔
بلاشبہ آج ساڑھے پانچ سال بعد پاکستان کو اپنی پالیسیوں کے زخموں اور عالمی حالات کے پیش نظر تبدیل ہونا پڑا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان ایک ایسی سمت کی طرف بڑھتا جارہا ہے جو روشنی کا طرفدار ہے۔
ایک لاچار اور زخمی ملالہ جب علاج کیلئے برطانیہ گئی تو اس وقت لگتا تھا کہ وہ کبھی اپنے گھر واپس نہیں آسکیں گی، کیونکہ جنہوں نے اسے قتل کرنے کی ناکام کوشش کی وہ نہتوں کے دماغوں میں بھی بندوق لیکر بیٹھے ہوئے تھے، اب جب وہ پاکستان آئیں تو لگا کہ پاکستان نے ایک رکاوٹ تو ضرور عبور کرلی ہے ۔
پاکستان کے چہرے پر لگے شدت پسندی کے داغوں کو دھونے کیلئے ایک بڑا عرصہ درکار ہوگا، لیکن وہ بھی اسی صورت میں جب پاکستان کی ریاست یہ طے کرلے کہ اسے یہ داغ دھونے ہیں، ایک پوری نسل، جس کی آبیاری ہماری ریاست نے اپنے مقصد کی خاطر کی تھی، اس کی نظریاتی سمت کو تبدیل کرنا بہت ہی مشکل ہوگا۔ لیکن یہ مشکل اس صورت میں ضرور کم ہوسکتی ہے جب ہم یہ اس کو مشکل محسوس کریں، اور ریاستی سطح پر اس کی طرفداری نہ کریں۔
پاکستان کے معاشرے میں عوام کی اکثریت شدید سماجی،معاشی پیچیدگیوں، انتظامی کمزوریوں ، انصاف تک رسائی کی محرومیوں ،نصاب میں ڈالی گئی برایوں کے باوجود بھی معتدل رویوں کی حامی رہی ہے، پاکستان کو مستقل بنیادوں پر بنائی گئی پالیسیوں پر چلانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں، ہم جتنی دیر کریں گے، ہمارا نقصان اتنا برھتا جائے گا۔
♦
One Comment