اٹھارہ18 مارچ 1978صبح آٹھ بج کر دو منٹ پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشاق حسین بھٹو کا مقدمہ سننے والے بنچ کے دوسرے ججز۔۔ جسٹس ذکی الدین پال، جسٹس گلباز خان اور جسٹس ایم۔ایچ قریشی کے جلو میں کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔ نشستیں سنبھالنے کے فوری بعد چیف جسٹس نے نواب محمد احمد خان کے مقدمہ قتل کا فیصلہ پڑھنا شروع کیا ۔
ذوالفقار علی بھٹو، میاں محمد عباس ،رانا افتخار احمد ،ارشد اقبال اور غلام مصطفٰے کو سزائے موت سنائی گئی جب کہ مسعود محمود اور غلام حسین کو وعدہ معاف گواہ ہونے کی بنا پر معافی دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔فیصلہ 410 پر مشتمل تھا اور اسے بنچ کے ایک رکن جسٹس شیخ آفتاب حسین نے لکھا اور بنچ کے دوسرے ارکان نے اس کی تائید کی تھی۔
فیصلے کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کو 25000ہزار روپے جرمانہ بھی کیا گیا تھا جو وصولی کی صورت میں مقدمہ کے مدعی احمد رضا قصوری کو ادا کیا جانا تھا۔فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ملزموں کے خلاف تمام الزامات بلا شک و شبہ ثابت ہوگئے ہیں ۔ یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ احمد رضا قصوری کو قتل کرنے کی سازش نواب محمد احمد خان کے قتل کے باوجود ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے بعد بھی جاری رہی تھی۔
نواب محمد احمد خان قتل کی ایف۔آئی۔آر 11۔نومبر 1974 کو نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں نواب محمد احمد خان کے قتل کے بعد درج ہوئی تھی۔ ایف ۔آئی۔آر کے مدعی احمد رضا قصوری تھے اور انھوں نے وزیر اعظم بھٹو کو اس ایف آئی آر میں ملزم نامزد کیا تھا۔بھٹو نے اس مقدمہ کی حساسیت کے پیش نظر جسٹس شفیع الرحمان کی سربراہی میں کمیشن بنایا اور اس کمیشن نے بھٹو کو اس مقدمہ کے حوالے سے بری الذمہ قرار دے دیا تھا۔
لیکن جو ں ہی مارشل لگا تو فوجی حکومت نے بھٹو کو اس مقدمہ قتل میں پھنسانے کی کوششیں شروع کردیں۔ ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود جنھیں مارشل لا کے نفاذ کے فوری بعد حراست میں لے لیا گیا تھا کو دوران حراست یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اگر وہ بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں تو ان کی جان بخشی کردی جائے گی چنانچہ انھوں نے مارشل لا حکام کی ہدایت اور جان بخشی کی یقین دہانی پر اپنا اقبالی بیان مجسٹریٹ کے روبرو ریکارڈ کرادیا تھا۔
سنہ1974میں درج ہونے والے مقدمہ قتل کا نامکمل چالان پولیس نے مجسٹریٹ کی عدالت میں داخل کیا جسے اسی دن سیشن کورٹ بھیج دیا گیا اور ہائی کورٹ نے اس کیس کو فوری طور پر اپنے روبرو فکس کرلیا تھا۔ جب چیف جسٹس مولوی مشتاق سے پوچھا گیا کہ مقدمہ قتل کو ماتحت عدالت سےفوری طور پر ہائی کورٹ کیوں منتقل کیا گیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ میرے سوا بھٹو کو کوئی اور ہینڈل نہیں کرسکتا۔
یہ قانونی تاریخ کی انوکھی مثال تھی کہ ایک ہی دن میں کیس بغیر کسی درخواست کے سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ منتقل کردیا گیا تھا۔ بھٹو نے عدالت میں درخواست دی کہ انھیں بنچ کے سربراہ پر اعتماد نہیں ہے کیونکہ وہ متعصب ہیں ۔ بنچ کے سربراہ چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے اس درخواست کو یک قلم مسترد کرتے ہوئے کیس دوسرے بنچ کو منتقل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ کی باقاعدہ سماعت 11۔اکتوبر 1977 کو شروع ہوئی ۔ استغاثہ نے 42گواہ پیش کئے۔ مسعود محمود چونکہ وعدہ معاف گواہ بن چکے تھے اس لئے انھوں نے کوئی گواہ پیش نہیں کیا تھا جب کہ میاں محمد عباس، رانا افتخار احمد، ارشد اقبال اورغلام مصطفےٰ نے اپنے دفاع میں گواہان پیش کئے ۔
بھٹو نے اپنے دفاع میں کوئی گواہ پیش نہیں کیا تھا۔ کیونکہ انھوں نے بنچ اوراس کے سربراہ مولوی مشتاق حسین کے متعصبانہ رویے کی بنا پر 9۔جنوری 1978 کو مقدمہ کی کاروائی کا بائیکاٹ کر دیا تھااور اپنے وکلا کے وکالت نامے بھی واپس لے لئے تھے۔ اس کے بعد بھٹو مقدمہ کی کاروائی سے لا تعلق ہوگئے تھے اور مقدمہ کی کاروائی یکطرفہ طور پر جاری رہی تھی۔
♦