سیاسی، اقتصادی اور سفارتی مشکلات میں گھرے پاکستان کے مسائل میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دہشت گرد افراد اور تنظیموں کی جو فہرست منگل کو اپ ڈیٹ کی، اس میں 139 نام پاکستان سے متعلق ہیں۔
اس فہرست پر پاکستان کے سیاسی مبصرین، معاشی امور کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’پریشان کن‘ قرار دیا ہے۔ فہرست میں کالعدم لشکر طیبہ اور کالعدم جماعت الدعوہ کے رہنما حافظ سعید، اس تنظیم کے ترجمان یحییٰ مجاہد اور اس جہادی گروپ کے ایک اور رہنما ذکی الرحمن لکھوی کے نام بھی شامل ہیں۔
سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کی اس فہرست کی وجہ سے پاکستان کے لیے بہت سے مالیاتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’فوری طور پر تو حکومت کو یہ کرنا پڑے گا کہ جن افراد کے نام اس لسٹ میں شامل ہیں، پاکستان کو ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنا پڑے گی۔
اگر ہماری عدالتیں ان افراد، تنطیموں یا گروپوں کو چھوڑ دیتی ہیں، تو ہمیں وہ وجوہات اور شواہد عالمی ادارے کو پیش کرنا پڑیں گے اور پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ ایسے کسی موقف کو کس حد تک تسلیم کرتے ہیں۔ اگر حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی اور وہ آزادنہ ہی گھومتے رہتے ہیں، تو پھر عالمی سلامتی کونسل پاکستان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتی ہے، جن سے ہماری اقتصادی مشکلات شدید ہو سکتی ہیں۔‘‘
مالیاتی امور کے ماہر فیصل بلوچ کے خیال میں اس سے پاکستان کے لیے مصیبتوں کا ایک طوفان کھڑا ہو جائے گا، ’’بعض اوقات صرف تاثر ہی حقیقت سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ اس فہرست کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کا یہ تاثر جائے گا کہ ہم دہشت گردوں کی مدد کرنے والے ممالک میں شامل ہیں اور بین الاقوامی برادری ہمارے خلاف سخت اقدامات کر سکتی ہے۔‘‘
فیصل بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس تاثر کی وجہ سے لوگ ہم سے ہماری مصنوعات نہیں خریدیں گے۔ ہماری درآمدات بھی متاثرہونگی اور خصوصاً ہائی ٹیکنالوجی مصنوعات خریدنے میں ہمیں مشکلات ہو سکتی ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے ہمیں قرض دینے سے بھی کترائیں گے کیونکہ اقوام متحدہ میں کئی کام عالمی سپر طاقت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
واشنگٹن کا مالیاتی اداروں پر اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا ہمیں چند افراد، جن پر دہشت گردی کا الزام ہے، ان کی وجہ سے پورے ملک کو داؤ پر نہیں لگانا چاہیے اور ان کے حوالے سے جو کچھ بین الاقوامی برادری کہہ رہی ہے، اس کو پورا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔‘‘۔
فیصل بلوچ کی سوچ سے اتفاق کرتے ہوئے اکنامک افیئرز ڈویژن کے ایک افسر نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے لیے درآمدات کے حوالے سے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ حال ہی میں ہم نے ایک ہائی ٹیک آئٹم برطانیہ سے خریدنے کی کوشش کی اور تمام معاملات کے باوجود اس ڈیل کو منسوخ کر دیا گیا۔ اب اس فہرست کے بعد مالیاتی اور اقتصادی میدانوں میں ہمارے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔‘‘۔
DW
♦
2 Comments