کسی بھی معاشرے میں کسی بھی فرد کو زندگی گزارنے کیلئے شناخت کی ضرورت ہوتی ہے اور انسان کی شناخت نہ صرفِ اس کے نام ، کردار اور عمل سے ہوتی ہے بلکہ اُسکی سوچ و فکر سے ہوتی ہے جسے دوسرے الفاظ میں نظریہ کہا جاتا ہے اور ایک معاشرے میں کسی مخصوص نظریہ کی تشکیل ہی اُس معاشرے کو شناخت دلا کر قوم کا درجہ دیتی ہے۔
مثلاََ 1963میں امریکی ریاست واشنگٹن میں عوامی جلسہِ سے خطاب کرتے ہوئے دنُیا کے مشہور ترین سوِل رائٹس ایکٹیوسٹ اور قوم پرست سیاہ فام لیڈرمارٹنِ لوتر کنگ نے اپنے پرُجوش اور مشہور تقریر “میرا ایک خواب ہے” یا کے ذریعے امریکی سیاہ فام شہریوں کو اُنکے بنیادی حقوق ، بے دریغ نا انصافیوں اور اُنکی شناخت کے حوالے سے عوامی شعور اُجا گر کیا۔
اپنی اسِ پرُ جوش تقریر میں مارٹن لوتر کنگ اپنی خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اپنی اولاد اور اپنے لوگوں کو ایسی امریکی ریاست میں دیکھنا چاہتا ہے جہاں اُن کی تشخیص رنگ و نسل کی بنیاد پر نہیں بلکہ کردار اور قابلیت کی بنا پر کی جائے، جہاں بلا تفریق ایک سیاہ فام امریکی اورایک سفید فام امریکی شہری کو برابر حقوق اور حیثیت دی جائے۔
مارٹن لوتر کنگ کی یہ تقریر محض ایک معمولی تقریر نہیں تھی بلکہ اُس کے نظریہ کی عکاسی تھی جس نے بعد میں افریقی – امریکیوں کو ایک علیحدہ قوم کی شناخت دلائی اور اسیِ خواب کی وجہ سے آج امریکہ میں تمام سیاہ فام امریکی شہری برابر حقوق سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جسکا مطلب یہ ہوا کہ مارٹن لوتر کنگ کا یہ خواب اور نظریہ پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔
اس سے قبل 1930 کو برِ صغیر پاک و ہند میں بھی اسیِ طرز کے خواب کا تذکرہ علامہ اقبال نے اپنے خطبہِ اللہ آباد میں کیا تھا جس میں انُہوں نے اُس وقت کے سندھ ، بلوچستان ، پنجاب اور سرحد کو یکجا ہوکر پاکستان بننے کا خواب دیکھا تھا ۔ مارٹن لوتھر کنگ کی طرح اقبال نے بھی ان چار صوبوں کے مسلمانوں کو اسلام کے ایک ہی پرچم تلے اتفاق ، تنظیم اور ایک ایمان کے تحت ایک آزادریاست کے خواب کا ذکر کیا تھا جسکا اظہار انُہوں نے اللہ آبادمیں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کے دوران کیالیکن مارٹن لوتر کنگ کے خواب کی عملی تعبیر کی طرح اقبال کے خواب کی عملی تعبیر نہ ہو سکی ۔
یوں اگر دیکھا جائے تو پاکستان آزاد ہوگیا لیکن افسوس کہ اقبال کے خواب اور اُن خوابوں کے تعبیر کی عکاسی کرتا ہواقائدِ کا نظریہ بھی پاکستان میں قیام نہ کرسکا۔
پاکستان کے آزاد ہوتے ہی مملکتِ پاکستان اپنی ریاستی اداروں کی ناکام پالیسیوں کے ہتھے چڑھ گیا اور مفاد پرست قوتوں کی تشکیل کردہ غلط ریاستی پالیسیوں کے تحت ملک کو دن بدن کمزور کیا گیا۔ اقبال کے خواب کے مطابق سندھ، سرحد، پنجاب اور بلوچستان تو پاکستان میں شامل ہو گیا لیکن مفاد پرست قوتوں8 کی جانب سے انہیں پیوست اور جوڑکہ رکھنے کو کوشش نہیں کی گئی۔ انہی ریاستی پالیسیوں کے تحت کبھی تنظیم، اتحاد ، ایمان کے نظریہ کو تبدیل کر کے مذہبی انتہا پسندی کو پروان چڑھا کر ریاستی مفاد پرست قوتیں اپنے مفادات حاصل کرتے رہیں۔
جس کی وجہ سے کبھی بنگال ہم سے الگ ہو ا تو کبھی طالبانائزیشن کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی اسلامائزیشن کے نام پر انتہاپسندی اور قتل و غارت کا کھیل رچایا گیا تو کبھی اقوام اور صوبوں سے نا انصافیاں کرکے اُن میں نفرت کا بیج بویا گیا اور جب ان غلط پالیسیوں کے خلاف آواز اُٹھائی گئی تو انُہیں غدار قرار دیکر بے دردی سے مارا گیا۔ کبھی سندھ میں مہاجراور سندھیوں کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے تو کبھی خیبر پختونخواہ کے پختونوں کو افغانستان کا وفادار۔
بلوچستان تو ویسے ہی 1948سے حالتِ جنگ میں ہے اور اس جنگی حالت کا ذمہ دار صرف اور صرف ریاستی ادارے اور انکی تشکیل ددہ ریاستی پالیساں ہیں۔ انہی مقتدر ریاستی اداروں کی ناجائز و ناکام ریاستی پالیسیوں اور نا انصافیوں کے خلاف آوازِ حق بلند کرنے پر تو بلوچوں پر 1948 سے وطن دشمن اور غداری کا ٹھپہ لگایا گیاتھا لیکن آہستہ آہستہ بلوچستان میں آباد پشتونوں کو بھی اُن گھناؤنی ریاستی پالیسیوں کی زد میں لاکر اُن پر بھی ظلم و ستم کر کے اُنہیں بھی اُن مقتدر اور ظالم قوتوں کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور کیا گیا۔
اور تو اور ، کوئٹہ میں 4سے5لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہزارہ کمیونٹی کوبھی نہ بخشا گیااور اُنہیں بھی ان گندی ریاستی پالیسیوں کے تحت قربانی کا بکرا بنا کر اُنکا سرِ عام قتل عام کرایا گیااور آج المیہ یہ ہے کہ ہزارہ برادری کے افراد اِن ظالمانہ ریاستی پالیسیوں کے تحت مسلسل ٹارگٹ کلنگ کے خلاف کوئٹہ کے علمدار روڑ پر گذشتہ 6دنوں سے مجبور ہو کر اسِ موقف کے ساتھ دھرنا دے رکھا ہے کہ ریاستی ادارے اپنی ان جابرانہ و ناکام پالیسیوں کے تحت ریاستی اداروں کی سرپرستی میں ہزارہ برادری کی نسل کُشی بند کی جائے اور اُنہیں پاکستان میں آزادی سے جینے کا مکمل حق دیا جائے۔
انِ ریاستی پالیسیوں کے تحت پیدا کی گئی بد امنی کی فضا کا ذمہ دار ریاست اور ریاستی اداروں سے ہزارہ برادری کے ان جواں مرد اور با ضمیر افراد کا آج یہی سوال ہے کہ ہمارے ریاستی ادارے ان غلط ریاستی پالیسیوں کے تحت پاکستان کے آئین سے غداری نہیں کر رہے ہیں ؟کیا آئین پاکستان کی غداری پر مبنی آرٹیکل 6 صرف مظلوم شہریوں پر ہی لاگوہوسکتا ہے اور کیا پاکستان کی مقتدرریاستی ادارے/ قوتیں آئین کی اسِ آرٹیکل 6سے مبُرا ہے؟ کیا پاکستان میں آئین کی بالادستی وجود رکتھی ہے؟ کیا ہم قائد کے نظریہِ تنظیم ، اتحاد اور ایمان کی توہین نہیں کررہے ہیں؟ کیا اقبال کے خواب کی تعبیر کرنا ہمارے ریاستی اداروں کا فرض نہیں بنتا؟ کیا ہمارا ضمیر زندہ ہے؟
یہ نہ صرف کوئٹہ میں دھرنے پہ بیٹھے ہزارہ برادری کے تحفظات ہیں بلکہ یہی تمام تحفظات آج پاکستان کے ہر عام شہری کے لبوں پر سوالیہ نشان بن کر رہ چکاہے۔پاکستان میں بسنے والاہر ذمہ دار اور با شعور فردد کا ریاست ، عدلیہ اور ریاستی اداروں سے یہی سوال ہے کہ کوئی تو ہو جو کھلُ کر سامنے آئے اور ان ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے ان تمام نا انصافیوں کا ازالہ کرکے مظلوم عوام کے جان و مال اور حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کراسکے۔
بقولِ شاعر:۔
کوئی تو سوُد چُکائے ، کوئی تو ذمہِّ لے۔۔۔
اُس انقلاب کا، جو آج تک اُدھار سا ہے