ایمل خٹک
ویسے تو پاکستان کی حکمران طبقات نے شروع دن سے میڈیا کو نکیل ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کی جہدوجہد کی تاریخ بڑی طویل ہے مگر میڈیا کی موجودہ صف بندی یا بٹ مین میڈیا کے رحجان کو سمجھنے کیلئے ماضی قریب میں جانے کی ضرورت ہے ۔ میڈیا بلیک آوٹ اظہار رائے پر پابندی کی ایک شکل ہے جس میں ریاستی دباؤ کے تحت میڈیا دانستہ طور پر کچھ سیاسی تنظیموں اور عوامی تحریکوں کی جہدوجہد ، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور ظلم اور ناانصافی کے خلاف اٹھنے والی عوامی آواز کو دبانے یا پھیلنے سے روکنے کیلئے کوریج دینے سے گریز کرتی ہے ۔ میڈیا بلیک آؤٹ کا شکار پشتونوں کے علاوہ بلوچ ، سندھی اور مہاجر ہیں ۔
فوج میں بٹ مین اس عام پیادہ کو کہتے ہیں جو افسران کے ذاتی ملازم کی طرح ان کے گھر کام کرتے ہیں ۔ بہت سی سماجی ، اقتصادی اور دیگر وجوہات کی بناء پر اب عام فوجیوں کی بجائے سویلین افراد کو بٹ مین رکھنے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ کچھ عرصہ سے پاکستان میں بٹ مین میڈیا کا رحجان فروغ پا چکا ہے ۔ بٹ مین میڈیا کا کام زبان سے بوٹ چاٹنا اور قلم اور کیمرے سے بوٹ کو چمکانا ہے ۔
مطلب ایک طرف اسٹبلشمنٹ کے گُن گانا اور سیاسی قیادت کو ولن اور فوجی قیادت کو ھیرو یا مسیحا کے طور پر پیش کرنا اور ریاستی بیانیوں کا فروغ اور ان کے جائز اور ناجائز کاموں کو جواز فراہم کرنا ہے ۔ دوسری طرف اسٹبلشمنٹ کی ایماء پر نہ صرف سیاسی ، عوامی اور حقوق کی تحریکوں کو جائز کوریج دینے سے اجتناب کرنا بلکہ ان کے خلاف ڈس انفارمیشن مہم میں بھی بھرپور حصہ لینا ہے ۔
اس طرح اسٹبلشمنٹ کی “ بی ٹیم “ یعنی مذہبی اور سیاسی گروپوں اور “ سی ٹیم “ یعنی عسکریت پسند تنظیموں کی عوام دشمن ، جمہوریت مخالف اور رجعت پسند ، فرقہ وارانہ اور نفرت انگیز ، انتہاپسند اور متشدد سرگرمیوں کو غیر معمولی اور غیر ضروری کوریج دینا ہے ۔ جبکہ مظلوم قوموں ، مذھبی اقلیتوں اور انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی دیگر یا پشتون تحفظ موومنٹ کی طرح عوامی تحریکوں کی حوصلہ شکنی ، سرگرمیوں کی کوریج کی بلیک آوٹ اور ان کے خلاف غلیظ اور بیہودہ پروپیگنڈاہوتا ہے ۔
صحافت میں بٹ مینوں کو پہچاننا مشکل نہیں کیونکہ وہ اپنی باتوں ، تاثرات اور حرکتوں سےاسٹبلشمنٹ کے بہت قریب ہونے یا ان کے ترجمان ہونے کا تاثر دیتے ہیں ۔ اس طرح بٹ مین میڈیا کی ایک اور پہچان یہ بھی ہے کہ وہ سیاسی قیادت ، قوم پرست ، عوامی اور انسانی حقوق تنظیموں کے خلاف غلیظ زبان اور سنگین الزامات لگاتے ہیں ۔
یہ رحجان جنرل پرویز مشرف کے دور میں پروان چڑھا ۔چیف جسٹس افتخار چودھری کی برطرفی کے بعد اسٹبلشمنٹ کی میڈیا مینی پولیشن کی وجہ سے میڈیا کی تقسیم اور صف بندی کا جو عمل شروع ہوگیا تھا وہ اسلام آباد میں دو سیاسی کزنز کی متنازعہ دھرنوں کے دوران معراج پر پہنچ گیا ۔ اس رحجان کو پروان چڑھانے میں محکمہ تعلقات عامہ کا بڑا رول رہا ہے ۔
اسٹبلشمنٹ کی میڈیا کنٹرول یا میڈیا مینی پولیشن کی کہانی بہت پرانی ہے ۔ ہر فوجی آمر نے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایک تو انہیں اپنی پروجیکشن کیلئے میڈیا کو رام کرنے کی ضرورت تھی ۔ دوسرا اختلاف رائے کو دبانا بھی مقصود تھا ۔ تیسرا چونکہ بہت سے ترقی پسند اور جمہوریت پسند صحافی قومی جمہوری تحریک کا بھی فعال حصہ تھے اسلئے آزاد اور فعال میڈیا کو کمزور کرنے کیلئے میڈیا تنظیموں کو توڑنے کی کوشش بھی کی گی ۔
اس کے علاوہ کچھ شخصیات کو پبلسٹی کا مرض بھی لاحق ہوگیا ہے ۔ دنیا میں ایک مسلمہ اصول ہے کہ فوجی قیادت میڈیا اورپبلسٹی سے دور بھاگتی ہے جبکہ پاکستان میں الٹا کلچر رائج ہے۔ وزراء یا حتی کہ وزیراعظم سے اگر زیادہ نہیں تو انہیں ان سے کم میڈیا کوریج بھی نہیں ملتی ۔ اور وہ قوم کو ہر معاملے پر بھاشن دیتے نظر آتے ہیں ۔
مہذب ممالک میں فوجی قیادت پیشہ وارانہ امور پر توجہ دیتی ہیں اور جنگی حکمت عملی کے حوالے سے ڈاکٹرائین دیتے ہیں جبکہ پاکستان میں اپنی پیشہ وارانہ امور سے متعلق کم بلکہ سیاسی معاملات کے حوالے سے زیادہ ڈاکٹرائن دینے کا رواج عام ہے ۔
جنرل محمد ایوب خان نے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی شروعات کی ۔ نئے کالے قوانین بنائے ۔ کئی پرائیوٹ اخبارات کو قومی تحویل میں لیا ۔ اور کئی ملازمین کو نکالا گیا ۔ کئی نامور صحافیوں جیسے فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی ، شورش کاشمیری وغیرہ کو قید وبند کا سامنا کرنا پڑا۔ مشہور اخبارات کو بندش کا سامنا کرنا پڑا۔
جنرل ضیاء الحق نے بہت منظم انداز میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور کالے قوانین کے نفاذ ، دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور میڈیا کی بھرپور سرپرستی کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں رجعت پسند افراد کو محکمہ اطلاعات میں بھرتی کیا ۔ بہت سے صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا ۔ اقتدار کے پہلے سال 120 صحافی تنظیموں کے ملازمین کو گرفتار کیاگیا۔ خصوصی فوجی عدالتوں میں ان پر مقدمات چلائے گئے ۔ چار صحافیوں کو کوڑے مارے گئے ۔
مشرف کے دور میں نئے طریقے آزمائے گئے ۔ خفیہ اداروں پر کئی صحافیوں کو اغوا کرنے اور مارنے کا شک کیا جارہا ہے ۔ اس ضمن میں حامد میر پر قاتلانہ حملہ اور ڈینیل پرل اور شہزاد سلیم کی شہادت کا واقعہ عالمی سطح پر مشہور ہے۔
یہ امر باعث دلچسپی ہے کہ آزادی صحافت پر ابتدائی حملے انتہائی معمولی اور ثانوی مسائل کی وجہ سے ہوئے۔ مثلا 12 مئ 1948 کو ایک ڈی ایس پی کے خلاف خبر چھاپنے پر پاکستان ٹائمز اور امروز کے مدیر اعلی فیض احمد فیض کو گرفتار کیا گیا۔ 21 مئی 1948 کو محمد علی جناح کے اردو زبان کو قومی زبان قرار دینے کے بیان پر مخالفانہ اداریہ لکھنے پر سندھی اخبار “ الوحید “ کو چھ ماہ کیلئے بند کیا ۔
لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات روکنے کی خلاف آواز اٹھانے پر ڈان اخبار کا سرکاری دفاتر میں داخلہ بند کردیا گیا ۔ اور ڈان کے رپورٹروں کو سرکاری پریس کانفرنسوں اور تقریبات میں بلایا جان بند ہوا ۔ وزیراعظم محمد علی بوگرا کی دوسری شادی کی خبر پر روزنامہ مسلمان بند کردیا گیا ۔ سندھ کے مسائل اٹھانے پر قدیم سندھی اخبار آلوحید کو ایک سال کیلئے بند کردیا گیا ۔
صحافت کا گلہ گھونٹنے میں ریاستی عناصر کے علاوہ غیر ریاستی عناصر نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ آٹھویں اور خصوصا نوے کی دھائی کے بعد ریاستی عناصر کے ساتھ غیر ریاستی عناصر کی جانب سے بھی میڈیا کو ہراساں کرنے ، ڈرانے دھمکانے اور صافیوں پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ پہلے لسانی اور سیاسی گروہوں نے اور بعد میں عسکریت پسند گروپوں نے میڈیا پر پریشر ڈالنے ، بلیک میل کرنے اور من مانے طریقے سے رپورٹنگ کیلئے دباو ڈالنے کی کوشش کی ۔
اگر آزادی صحافت کے حوالے سے گزشتہ دس پندرہ سال پر نظر ڈالی جائے تو بڑی تشویشناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ صحافیوں کی تحفظ اور حقوق کی ملکی تنظیمیں ہو یا عالمی تنظمیں یا انسانی حقوق کی وہ سب ایک بات پر متفق ہیں کہ پاکستان صحافیوں کیلے ایک خطرناک ترین علاقہ ہے ۔ مثلاً پچھلے سال انترنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی ایک رپورٹ کے مطابق جرنلسٹوں کیلے خطرناک ترین ممالک کے فہرست میں چوتھے نمبر پر تھا اور1990 سے لیکر پچھلے سال تک 117 ھلاکتیں ہوئی تھی ۔ سی پی جے کی ایک رپورٹ کے مطابق جو 2015 میں شائع ہوئی تھی 51 کیس درج کیے گے جس میں صرف تین کے قاتل گرفتار کئے گے ۔ 40 فیصدی قاتلوں کا تعلق کالعدم مذھبی تنظیموں ۔ 35 فیصدی صحافی پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دروان مارے گئے ۔
غرض بٹ مین میڈیا سویلین ، سیاسی راہنماوں اور منتخب نمائندوں پر تنقید اور کردار کشی کیلئے تو آزاد ہے مگر اسٹبلشمنٹ پر تنقید نہیں کرسکتا جس کی بنائی گی پالیسیوں کی وجہ سے ملک داخلی او خارجہ پالیسی کے بحرانوں سے دوچار ہے۔ بٹ مین میڈیا کی متعصبانہ اور انتہائی جانبدار رویوں اور اسٹبلشمنٹ کی ایماء یا اس کی خوشنودی کیلئے عوامی مسائل اور احتجاجوں کو کوریج دینے میں یکسر اور دانستہ نظرانداز کرنے کی پالیسی کی وجہ سے نہ صرف غم وغصہ اور ناراضگی بلکہ پاکستان کی مظلوم قومیتوں ، طبقات اور اقلیتوں میں احساس محرومی اور بیگانگی بھی بڑھ رہی ہے۔ اور مظلوم قومیتوں خاص کر پشتون ، بلوچ ، سندھی اور مہاجر اور مذھبی اقلیتوں جیسے اھل تشیع اور دیگر گروپوں کیلئے ریاستی جبر اور زیادتیوں کے خلاف سوشل میڈیا ایک مضبوط زریعہ بن گیا ہے۔
♦
One Comment