علی احمد جان
مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان ہندو مسلم تقسیم کے علاوہ جس بات پر اختلاف تھا وہ ہندوستان کی اشرافیہ کے استحقاق پر تھا ۔ مسلم لیگ ہندوستان کی نیم خودمختار نوابی ریاستوں ، جاگیروں اور راجواڑوں کے بارے میں وہ موقف نہیں رکھتی تھی جو نہرو کی کانگریس کا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو ایسی بیشتر ریاستوں کے والیان کا مسلمان ہونا تھا اور پھر ا ن ریاستوں سےمسلم لیگ کو ملنے والی امداد بھی ایک وجہ تھی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ستر کی دہائی تک بہاولپور، دیر، سوات، خیرپور ، ہنزہ، نگر، چترال ، باجوڑ ، قلات سمیت کئی ریاستیں اور راجواڑے برقرار رہے۔
پاکستان بننے کے بعد ہندوستان میں شامل ایسی ریاستوں کے مسلمان نوابوں اور والیان نےنئے بننے والے ملک کا عنان اقتدار سنبھالا تو پہلی کابینہ کی اکثریت بھی مہاجرت کرکے آنے والوں کی تھی ۔ نواب زادہ لیاقت علی خان سے سکندر مرزا تک اقتدار کی رسہ کشی بھی ان ہی کے درمیان رہی ۔ ملک میں آئین اور جمہوریت کی صورت میں اشرافیہ کے ہاتھ سے اقتدار جا نے کے خوف سے ملک دو حصوں میں تقسیم ہونے تک عملاً بے آئین اور غیر جمہوری رہا۔
ایوب خان نے اپنی حمایت کے لئے مقامی اشرافیہ کو بھی اقتدار میں شریک کرلیا لیکن در حقیقت جاگیر داروں کے لئے سیاست کے دروازے اس کے بنیادی جمہوریت کے فارمولے نے کھول دئے۔ بنیادی جمہوریتوں کے ذریعے جہاں وہ خود سیاہ و سپید کے مالک بن گئے وہاں ملک بھر میں ایک نئی سیاسی اشرافیہ بھی وجود میں آگئی۔
بعض لوگوں کے نزدیک ہندوستان سے آئی قد امت پسند اشرافیہ کی طرف سے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت بھی حب علی سے زیادہ بغض معاویہ تھی۔ ایوبی مارشل لاء کے دوران مغربی پاکستان کی مقامی اشرافیہ بہت مضبوط ہوکر سامنے آئی جن میں وہ بھی شامل تھے جنھوں نے تقسیم ہند کے بعد کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی سندھ کی جاگیردار اشرافیہ سے تعلق رکھتا تھا جس کو ایوب نے اس کی قابلیت کی بنیاد پر اپنے ساتھ اس لئے شامل کرلیا تھا کہ وہ اپنے مخالفین کے سامنے مضبوط کھڑا ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو نے محسوس کیا تھا کہ نئے بننے والے ملک میں سیاست صرف اشرافیہ کے گرد گھومتی ہے جس نے دولت اور طاقت کو صرف چند خاندانوں تک محدود کر دیا ہے جس سے ملک کی اکثریت نالاں مگر بے بس ہے ۔
بھٹو کے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کے پیچھے مغربی پاکستان کے عام لوگوں کی اکثریت کھڑی ہوئی جس نے ان کو ایوان اقتدار تک پہنچایا۔ بھٹو کے پارلیمانی جمہوریت کے آئین نے ایک طرف ہندوستان سے آئی اشرافیہ کو اقتدار سے باہر کردیا تو دوسری طرف نوابی ریاستوں کے خاتمے اور عام لوگوں کو سیاسی طور پر طاقتور بنانے کی حکمت عملی سے مقامی اشرافیہ بھی اس کی دشمن بن گئی۔
بھٹو کو اشرافیہ کی گٹھ جوڑ نے اقتدار سے باہر کرکے پھانسی کے پھندے تک پہنچایا تو ایک بار پھر مارشل لاء کے زیر سایہ اشرافیہ کی پرورش ہونے لگی جس میں اب چھوٹے صوبوں کے بڑے لوگ نمایاں تھے۔
پاکستان کی نظریاتی سیاسی حلقوں میں قومی اور طبقاتی سوال پر ہمیشہ بحث ہوتی رہی جس کا نتیجہ بعض سیاسی جماعتوں میں نظریاتی تقسیم کی شکل میں سامنے آیا ۔ نتیجے کے طور پر نظریاتی سیاسی جماعتیں کمزور ہوگئیں جن میں عوامی نیشنل پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی ، کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن، ڈیموکرٹیک سٹوڈنٹس فیڈریشن، اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسی طلبہ تنظیمیں بھی تھیں جن کی طبقاتی اور قومی حقوق کے لئے جدوجہد کی ایک تاریخ تھی۔
سنہ 1988 ء کے انتخابات کے موقعے پر ایک طرف نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن نے معراج محمد خان کو تنہا چھوڑ دیا تو دوسری طرف جام ساقی نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے کمیونسٹ پارٹی کا پرچم لپیٹ لیا۔ نوب اکبر خان بگٹی جو مارشل لاء کے دور میں اردو زبان نہ بولنے کا قول دے کر بیٹھے تھے بلوچستان نیشنل الائنس بنا کر سامنے آئے اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بھی ان کی حمایت اور مخالفت میں قومی اور طبقاتی سوال پر منقسم ہوگئی۔ نظریاتی سیاسی جماعتوں کی تقسیم در تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کمزوری نے موقع پرستی اور مفاداتی سیاست کو پنپنے کا موقع دیا۔
جنرل ضیا ء الحق کے مارشل لاء کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہ تھا اور نہ ہی اس کو ملک کے اندر اور باہر حمایت حاصل تھی۔ بیرون ملک حمایت تو اس مارشل لاء کو افغان جنگ کی وجہ سے امریکہ اور سعودیہ کی مدد سے حاصل ہوئی اندرون ملک حمایت کے لئے مذہب کے نام پر فرقہ پرستی اورترقی کے نام پر برادریوں کی سیاست کو پروان چڑھایا گیا ۔
زکواۃ اور بیت المال سے قومی خزانے کا منہ ملک کے کونے کونے میں فرقہ پرست ملاؤں کے لئے کھول دیا گیا تو نہ صرف مدرسوں کی صنعت وجود میں آئی بلکہ جہاد ایک نیا روزگار کی شکل اختیار کر گیا ۔ اس نئی صنعت اور کاروبار نے مسجدوں میں وظیفے پر پلنے والوں کو اتنا مضبوط بنا دیا کہ اب ہر سطح پر ان کی مشاورت اور شرکت کے بغیر فیصلے ناممکن ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی علما ء اور مشائخ کی حمایت کے لئے گدی نشینوں اور موروثی پیروں کو بھی اقتدار میں حصہ دیا گیا جن میں جنوبی پنجاب اور سندھ کے متولی اور مخدوم نمایاں تھے۔
برادریوں کی سیاست نے لوگوں کو حکومتی سرپرستی حاصل کرنے پر مجبور کیا تو مارشل لاء کی گود میں پلنے والی مسلم لیگ کو بھی ایسے تمنداروں ، سرداروں اور سرخیلوں کی حمایت حاصل ہوئی جن کو بھٹو کے دور میں اپنے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے والے جیالوں سے خطرہ محسوس ہوتا تھا۔ پیپلز پارٹی کے ۹۸۵ ۱ء میں غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی جب پوری غیر سیاسی اسمبلی نے اصطبل بن کر انتخابی سیاست کو ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کردیا۔
سنہ 1988ء اور اس کے بعد کے انتخابات تسلسل کے ساتھ سیاسی انجنیئرنگ کا تجربہ تھا ۔ ایک طرف انتخابا ت میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے پیسے کا استعمال ، ترقیاتی فنڈ کی فراہمی، مقامی طور پر ترقیاتی سکیموں کا اجراء ، نوکریوں اور تبادلوں کے علاوہ پولیس اور انتظامیہ کے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نےقبائلی سرداروں، برادریوں کے تمنداروں اور مزاروں کے متولیوں اور پیروں کو مضبوط سے مضبوط تر بنا دیا۔ دوسری طرف کسی نظریاتی اور سیاسی وابستگی کے بغیر انتخابات جیت کر آنے والے غیر سیاسی لوگ مقتدر حلقوں کو سیاسی جماعتوں کے بازو مروڑنے کے لئے بھی آلہ کار کے طور پر دستیاب ہوگئے۔
ایسے غیر سیاسی اور غیر نظریاتی لوگ وقت کے ساتھ بہت مضبوط ہوگئے ہیں اب وہ اکیلے نہیں بلکہ گروہ کی شکل میں دستیاب ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بے پیندے کا لوٹا ہونے، تھالی کا بینگن ہونے یا گھوڑا برائے فروخت ہونے کا لیبل بھی نہیں لگتا کیونکہ وہ بہ آسانی قانون کے مطابق فارورڈ بلاک تشکیل دیتے ہیں اور اپنے سیاسی منشور کا اعلان کر دیتے ہیں۔
ان لوگوں کا اپنا مفاد ہی ان کا سیاسی نظریہ ہوتا ہے مگر یہ بات ہمیشہ وسیع تر قومی مفاد کی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو قابو کرنا اور ان سے اپنی بات منوانا طاقتور حلقوں کے لئے آسان ہوتا ہے اس لئے ایسے لوگوں کی پیدائش اور پرورش بھی ان ہی کے ہاتھوں ہوتی ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم جیسی سیاسی جماعت سے لیکر فاٹا کے انفرادی طور پر جیت کر ایوانوں میں آنے والے ہمیشہ طاقتور حلقوں کے آلہ کار رہے ہیں ۔ ایسے لوگ گلگت سے پنجاب، کےپی، بلوچستان اور سندھ تک راتوں رات فرمائشی سیاسی جماعت بنانے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
بلوچستان میں حکومت کی تشکیل میں ہمیشہ ایسے قبائلی سرداروں اور مذہبی راہنماؤں کو شریک کیا جاتا ہےجو صوبے کی محرمیوں کا رونا رو کر صرف اپنی ضروریات اور ذاتی مفادات کی فکرکریں۔ یہاں کی اصل سیاسی قیادت کو ہمیشہ دیوار کے ساتھ لگاکر مفاد پرست ٹولے کی سرپرستی کی وجہ سے بلوچ نوجوان نے کبھی ریاست پر اعتماد نہ کیا مگر کسی کو اس بات کی پرواہ نہیں ۔
جنوبی پنجاب کے سرائیکی وسیب میں الگ انتظامی یونٹ یا صوبہ ایک حقیقی عوامی مطالبہ ہے مگر صوبے میں سیاسی اتھل پتھل کے لئے اس نعرے کو استعمال کرنے کی جو نئی رسم شروع ہوئی ہے اس سے نتائج بہتر نہیں نکلیں گے۔ تاریخ کا یہ بھی سبق ہے کہ ایم کیو ایم سندھ کے تقسیم کےنام پر تشکیل دی گئی ، بلوچستان میں سیاسی اور قومی حقوق کے نام پر اکبر بگٹی کو مضبوط کردیا گیا لیکن جب چھوٹے صوبوں کے لوگ واقعی بڑے ہوگئے تو ان کو ہٹانے کے لئے جو راستہ اختیار کیا گیا اس سے ریاست، جمہوریت اور وفاق مضبوط نہیں ہوئے بلکہ کمزور پڑ گئے۔
♦