آصف جاوید
پاکستانی قوم اپنی موجودہ سوچ کی بناء پر ترقّی کیوں نہیں کرسکتی؟ یہ وہ فکری سوال ہے جس پر گذشتہ دنوں ہماری قابل احترام دوست اور سوشل سائنٹسٹ پروفیسر ڈاکٹر بیلہ نواز نے فکری بحث کا آغاز کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے دلائل میں سنگاپور کے مشہور رہنما اور سوشل ریفارمر جناب لی کو ُآن یو کے کسی پاکستانی لیڈر سے کئے گئے تبادلہ خیال کا بھی حوالہ دیا ۔
لوکوان یو کے اس انٹرویو کو متعدّد پاکستانی اخبارات متعدّد مرتبہ شائع کرچکے ہیں، کہا جاتا ہے کہ پاکستانی وفد کے سربراہ نے جب سنگاپور میں اپنے سرکاری دورے سے فراغت حاصل کرلی تو جدید سنگاپور کے بانی اور عظیم سوشل ریفارمر جناب لی کُوان یو سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ وہ لی کو آن یو سے لیڈر شپ اور ترقی کی ”ٹپس“ لیناچاہتے تھے۔
سنگاپور کے وزیراعظم نے لی کو آن یو کے ساتھ ان کی ملاقات طے کردی‘پاکستانی رہنما نے چند لوگوں کا انتخاب کیا اور اس شام لی کو آن یو کے پاس حاضر ہوگئے‘ یہ ملاقات سنگاپور کے وزیراعظم ہاؤس میں ہوئی‘ گفتگو کے آغاز میں لی کو آن یو نے انکشاف کیا وہ مختلف حیثیتوں سے 8 مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں لہٰذا وہ پاکستان کے جغرافیے، رسم و رواج اور لوگوں سے پوری طرح واقف ہیں۔
پاکستانی رہنما ء نے بڑے ادب سے ان سے پوچھا ”کیا آپ اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں پاکستان بھی کبھی ترقّی کرکے سنگا پور بن جائے گا“ لی کو آن نے ذرا دیر سوچا اور انکار میں سر ہلادیا‘ ان کا رد عمل‘ سفاک، کھرا اور غیر سفارتی تھا‘ حاضرین پریشان ہوگئے ‘ لی کو آن یو ذرا دیرخاموش رہے اور پھر بولے”اس کی تین وجوہات ہیں“ وہ رکے اور پھر بولے۔
” پہلی وجہ آپ کی قومی سوچ و فکر یعنی قومی آئیڈیالوجی ہے“، آپ لوگوں اور ہم میں ایک بنیادی فرق ہے‘ آپ اس دنیا کو عارضی سمجھتے ہیں، آپ کا خیال ہے آپ کی اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہوگی چنانچہ آپ لوگ اس عارضی دنیا پر توجہ نہیں دیتے، آپ سڑک، عمارت، سیوریج سسٹم ، ٹریفک اور قانون کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جبکہ ہم لوگ اس دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ہم اس دنیا کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنا رہے ہیں“ وہ رکے اور ذرا دیر بعد بولے ”آپ خود خودفیصلہ کیجئے جو لوگ اس دنیا پر یقین نہ رکھتے ہوں ‘وہ اسے خوبصورت کیوں بنائیں گے؟
دوسری وجہ” آپ لوگوں کی زندگی کے بارے میں اپروچ درست نہیں ہے “ میں پیشے کے لحاظ سے وکیل ہوں، ہندوستان کی تقسیم سے پہلے میں اس علاقے میں پریکٹس کرتا تھا‘ میرے موکل کلکتہ سے کراچی تک ہوتے تھے‘ میں نے ان دنوں ہندو اور مسلمان کی نفسیات کو بڑے قریب سے دیکھا‘میرے پاس جب کوئی ہندو کلائنٹ آتا تھا اور میں کیس کے جائزے کے بعد اسے بتاتا تھا تمہارے کیس میں جان نہیں ‘ تم اگر عدالت میں گئے تو کیس ہار جاؤگے تو وہ میرا شکریہ ادا کرتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا‘ آپ مہربانی فرما کر میری دوسری پارٹی سے صلح کرادیں‘ میں اس کی صلح کرا دیتاتھا اور یوں مسئلہ ختم ہو جاتا تھا۔
جبکہ اس کے مقابلے میں جب کوئی مسلمان کلائنٹ میرے پاس آتا تھا اور میں اسے صلح کا مشورہ دیتاتھا تو اس کا جواب بڑا دلچسپ ہوتا تھا‘ وہ کہتا تھا وکیل صاحب آپ کیس دائر کریں میں پوری زندگی مقدمہ لڑوں گا‘ میرے بعد میرے بچے لڑیں گے اور اس کے بعد ان کے بچے لڑیں گے“ لی کو آن یو رکے اور مسکرا کر بولے ”میرا تجربہ ہے جوقومیں اپنی نسلوں کو ورثے میں مقدمے اور مسئلے دیتی ہوں وہ قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں ۔
تیسری اورآخری وجہ “آپ کے ملک پر آسیب کا سایہ یعنی فوج کا کنٹرول ہے” آپ کے ملک میں فوج مضبوط اور سیاست دان کمزور ہیں اور مجھے پوری دنیا میں آج تک کوئی ایسا ملک نہیں ملا ،جس نے فوجی اثر میں رہ کر ترقی کی ہو“ وہ رکے اور دوبارہ بولے ”فوجی اور سیاستدان کی سوچ میں بڑا فرق ہوتا ہے‘ فوجی مسئلہ پیدا کرتا ہے جبکہ سیاستدان مسئلے حل کرتے ہیں، فوجی کی زندگی کا صرف ایک اصول ہوتا ہے‘ زندگی یا موت جبکہ سیاستدان جیو اور جینے دو کے فلسفے پر کاربند ہوتے ہیں، فوجی کو زندگی میں مر جاؤ یا مار دو کی ٹریننگ دی جاتی ہے جبکہ سیاستدان کو صلح، مذاکرات اور نرمی کی تربیت ملتی ہے۔ چنانچہ میرا تجربہ ہے جس ملک میں حکومت اور سیاست فوج کے پاس ہو وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرتا۔
قارئین اکرام ، اس فکری سوال پر ہمارا بھی یہی نکتہ نظر ہے۔ ، نظام کو تبدیل کرنے کے لئے سوچ کو تبدیل کرنا بہت ضروری ہے۔ پاکستانی قوم اپنی موجودہ سوچ (قومی بیانئے) کی بناء پر ترقّی نہیں کرسکتی، پاکستانی قوم کو اپنی فکر کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ایک نیا قومی بیانیہ ترتیب دینا ہوگا۔
یہ سیاستدانوں کا کام نہیں، یہ پوری قوم کے اہلِ فکر اور دانشوروں کی ذمّہ داری ہے کہ وہ قوم کی فکری رہنمائی کریں۔ کیونکہ سیاستدانوں کی نظر اگلے انتخابات پر ہوتی ہے، جب کہ اہلِ فکر و دانش کی نظر قوم کے مستقبل پر ہوتی ہے۔ جو تمام خود ساختہ دانشور جو اصل مسائل سے آنکھیں موڑ کر ادھر ادھر کی لن ترانیاں کرتے ہیں وہ قومی مجرم ہیںَ۔ اگر آج درست فیصلہ نہیں کیا گیا تو اس ملک میں احمدی، شیعہ، ہندو، عیسائی، اور مہاجر، سرائیکی، بلوچ ، سب لوگ مذہب، عقیدہ، فرقہ، زبان اور لسّانیت کی بنیاد پر استحصال اور امتیازی سلوک کا شکار ہوتے رہیں گے۔
قارئینِ اکرام ،اب وقت آگیا ہے کہ آئین پاکستان کے مینوفیکچرنگ فالٹ کو درست کردیا جائے ۔ آئین پاکستان کو ضمانت دینی ہوگی کہ آئین اور ریاست کا کوئی مذہب نہیں، اس ریاست کے تمام باشندے بلا امتیاز رنگ و نسل ، مذہب عقیدہ اور فرقہ برابر حیثیت کے مالک ہیں، اکثریتی گروہ کا مذہب اور عقیدہ پورے ملک کا مذہب اور عقیدہ نہیں، ریاست سب کو یکساں حقوق اور تحفْظ فراہم کرنے کی عملی طور پر ذمُہ دار ہو۔ کسی اقلّیتی مذہبی گروہ کو اس کے مذہبی عقائد کی بناء پر تضحیک کا نشانہ نہ بنایا جائے اس پر عرصہ حیات تنگ نہ کیا جائے،ریاست اور آئین کسی کے مذہب اور عقیدہ کا فیصلہ نہ کریں۔
ریاست اور قانون کسی کو اس کے مذہبی عقائد کے برخلاف زندگی گزارنے پر مجبور نہ کرے۔ کسی غیر مسلم کو اقلّیت قرار دے کر اس کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔کسی صوبے میں دو مختلف ثقافتوں کے لوگوں میں تفریق کرنے کے لئے شہری اور دیہی میں تقسیم کرکے ہجرت کرکے آنے والوں کا حق 40 فیصد اور فرزندِ زمین کا حق 60 فی صد کا امتیاز ختم کرنا ہوگا،ایسی انتخابی حلقہ بندیوں کو ختم کرنا ہوگا۔
جہاں 45 مہاجروں کا ووٹ فرزندِ زمین کے ایک ووٹ کے برابر ہو۔ سماجی انصاف کو آئین کا نفسِ ناطقہ ہونے کی ضمانت دینی ہوگی۔قومی وسائل کو انصاف اور برابری کی بنیاد پر تقسیم کرنا ہوگا۔فوج ایک قومی ادارہ ہے ، اس قومی ادارے کو حقیقی قومی ادارہ بنانے کےلئے پورے ملک کے لوگوں کو فوج میں ان کی حقیقی نمائندگی دینی ہوگی۔اس تاثّر کو ختم کرنا ہوگا کہ فوج پر صرف ایک صوبے کی اجارہ داری ہے۔ ۔
یہ ملک فوج نے نہیں بنایا تھا ،جس وقت ملک بنا فوج اس وقت جنرل گریسی کی کمانڈ میں تھی۔ خارجہ پالیسی کیسی ہو؟ داخلہ پالیسی کیا ہو؟ یہ عوام کا اختیار ہے۔ فوج کا نہیں۔ فوج کا کام جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے۔ نظریاتی سرحدوں کے لئے دانشورانِ قوم اور جامعات کافی ہیں۔ انٹیلیجنس ایجنسیوں کا آئینی کردار متعیّن کرنا ہوگا، ان سے سیاستدانوں میں بریف کیس تقسیم کرنے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کا غیر مرئی اختیار واپس لینا ہوگا۔ ان اداروں کوآئینی حدود میں کام کرنے کا پابند کرنا ہوگا۔
یہ ملک عوام نے بنایا تھا عوام ہی اس ملک کی تقدیر کے اصل مالک ہیں۔ عوام کو اس ملک کا حقِ حکمرانی دینا ہوگا۔ ورنہ جو عذاب گزشتہ 70 سال سے سہ رہے ہیں اس ہی عذاب کو خاموشی سے سہتے رہیں گے۔ سوچ تبدیل کئے بغیر نظام کی تبدیلی کی توقّع کرنا ایک احمقانہ خواب دیکھنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
♣
2 Comments