آمنہ اختر
آج سے بیس سال پہلے میں بھی جوان تھی اور ان نوجوانوں میں شمار تھی جو پاکستان سے باہر نکلنا چاہتے تھے ۔ اعلی تعلیم ،روزگار ، جدید دنیا میں ایک آزاد عورت بحیثیت انسان کے طور پر جینے کی منزل یورپ بنائی تھی ۔جس کے لیے انتھک محنت کی ہے مگر ابھی بھی اس مقام پر آنے کی کوشش جاری ہے ۔
مگر آج 2018میں آپ نوجوانوں کے میسیجز ملتے ہیں تو آپ بھی وہی دکھ روتے ہیں جن کومرہم لگانے میں اور بہت سے اوربھی یورپ آ نکلےتھے۔مگر جب آپ سے ملک کے ابتر ہوتے ہوئے حالات معلوم ہوتے ہیں شاید میں نے پھر بھی ان کے بدلے کم دیکھے ہیں ۔
آپ بتاتے ہیں ملک میں پہلے صرف مرد رشوت لیتا تھا اب کے عورتیں بھی لیتی ہیں ۔چوری پہلے صرف سیاست دان ہی کرتے تھے اب کہ مولوی اور سفید پوش مرد اور عورتیں بھی کرتی ہیں ۔پہلے پہل نشے میں دھت اور بےروزگار مرد لوگ سڑکوں پر رات گزارتے سوتے دیکھتے تھے اب کہ مائیں بھی اپنے بچوں کو سڑکوں پر سلاتی ہیں۔ لڑکیاں اور نوجوان لڑکے اپنے جسم کی قیمت خود بولتے ہیں اور کئی ہوس زدہ درندوں کی بھوک کے بدلے اپنے جسم سستے داموں بیچتے ہیں ۔
پہلے ملاوٹ سیمنٹ میں ہوتی تھی اب کہ آٹے میں بھی ہوتی ہے ۔غرض کہ اب انسانوں جیسے انسانی جسم تو ہیں مگر انسانیت کے معیار سے خالی زندگیاں پاکستان کے باسیوں کا مقدر ہیں ۔
مگر میں سوچتی ہوں کہ اپ کو باہر کی دنیا بڑی آسان دکھائی دیتی ہے ۔ میں بتاتی چلوں یہاں بڑی محنت کرنی پڑتی ہے جو کہ بہت سالوں سے شروع ہوئی تھی اور ابھی تک جاری ہے۔اپنے حقوق لینے کے لیے جانیں دیں اور ابھی بھی سڑکوں پر اکٹھے ہو کر احتجاج کرتے ہیں۔اس میں مرد اور عورت دونوں برابر کا حصہ ڈالتے ہیں۔ آٹھ گھنٹے محنت کرنی پڑتی ہے اپنی نوکری کا 30فیصد ٹیکس (،بہتر سکول ،ہسپتال ،سڑکیں وغیرہ کے لیے )دینا ہوتا ہے ،اپنے گھر کا بھی خرچہ اور ٹیکس ،ڈاکٹر کی فیس سال کا کارڈ بنوانا پڑتا ہے ،آنکھوں کے علاج کے لئے خود جیب سے پیسے لگانے پڑتے ہیں دانتوں کا علاج بھی مفت نہیں۔
ہاں جس کی تنخواہ کم ہو اس کو حکومت تھوڑی مقدار میں پیسے ادا ضرور کرتی ہے ۔نہ ہی پیڑوں پر پتوں کی جگہ نوٹ لگتے ہیں اورنہ ہی آپ کو اپنے ہم زبان خالص ملتے ہیں ۔نہ ہی بے روزگار لڑکوں کو یوروپین لڑکیاں ساتھی بناتی ہیں اور نہ ہی مرد غیر ملکی ،بے روزگار لڑکیوں کو منہ لگاتے ہیں ۔
غرض کہ محنت ہی ہے جو رنگ لاتی ہے اجتماعی کوشش اور سب کےلئے ایک جیسے قانون کا اطلاق ہی یہاں کا راز ہے میاں ،خان ۔چوہدری وغیرہ شخصیت کا پرچار نہیں اسکا علم اور کام اسکا سیاسی ایجنڈا ہے ۔ہر محلے میں کوئی نہ کوئی گروپ یا تنظیم ہے جو گلیوں کو صاف اور محلے میں سکون اور مسائل پرگفتگو کےلئے اپنی مصروفیت سے ہٹ کر مل بیٹھتے اور تجاویز مقامی حکومت تک پہنچاتے ہیں ۔اور اپنے علاقے کی حکومت سے اپنے ادا کئے ہوئے ٹیکس کی باز پرس بھی کرتے ہیں ۔
یہاں خدا آسمان میں نہیں لوگوں میں بیٹھ کر ان کو ان کے مسائل کے حل پر جواب دیتا ہے اور عملی کاروائی کرواتا ہے ۔بزرگ اپنے تجربات سے نوجوانوں کی نئی سوچوں میں اپنے تجربات سے انفرادیت کے رنگ بھرتے ہیں ۔
پاکستان کے نوجوانو !کبھی سوچا کہ ہم کس کھیت کی مولیاں ہیں ۔ہمیں یورپ کی ہمدردی کی خیرات پر ہمارا ملک پیدا ہی کیوں کر رہا ہے۔یقین جانئے یورپ کے عقل ، علم اور روزگار پر پورا اترنے کے لیے ہمارے ملک کے سکول اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں وہ قابلیت بھی نہیں جو ہمیں پڑھایا جاتا ہے۔اور جس کو ہم چند سالوں میں یورپ کے اندر رہ کر بھی پورا نہیں کرسکتے ۔ افسوس ان سب کاموں کے لئے ہماری اپنی حکومت پاکستان ہمیں نہ اس قابل کرتی ہے اور نہ ہی کرنا چاہتی ہے ۔ ہم جیسے سہولتوں کی کمی کا شکار لوگ یورپ کے معاشرے کی سماجی اور معاشی زندگی میں بھی بہت پیچھے رہتے ہیں ۔
یورپ آئے نوجوان پاکستان میں بیٹھے اپنوں اور اپنے پیٹ کو پالنے کے لیے زیادہ تر کم تنخواہ پر ملازمت کرتے ہیں اور اس کم اجرت کی ناانصافی کے مرتکب اپنے دیسی لوگ زیادہ ہیں۔ پھر ان دیسی ہم زبان لوگوں کی زیادتی کے خلاف نوجوان یورپ کی انسانی حقوق کی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں اور انصاف پاتے ہیں۔
انسان کہلانے ، سماجی اور معاشی زندگی میں وقار پانے کے لئے علم چاہئے حوصلہ چاہئے اپنے ساتھ ہوئی زیادتی کا ٹھوس ثبوت چاہیے ۔اس کی ڈیمانڈ پاکستان اور یورپ میں ایک جیسی ہی ہے ۔ پاکستان اور یورپ دونوں ہی کی زبان میں انسان کے بچے کو نوجوان ہی کہتے ہیں۔ اپنے حقوق کے لئے ہم آواز ہونا یورپ اور پاکستان میں بھی ایک جیسا ہونا چاہیے ،آپ نوجوانو! کا کیا خیال ہے ؟