تاریخ کی یہ روایت رہی ہے کہ بادشاہ کبھی اپنی ذات اور کبھی اپنے عہد کو کسی اہم خصوصیت سے منسوب کرتا تھا جس سے اس کی شہرت ، مقبولیت اور رعایا پروری کی تشہیر ہو۔ جب عباسی دور میں ایرانیوں کا اثرو رسوخ ہوا تو ساسانی بادشاہوں کے دربار اور ان کی رسومات کو اختیار کیا گیا اور نوشیروان عادل کو بطور مثالی حکمران پیش کیا گیا۔
مورخوں اور شاعروں نے بھی عدل و انصاف کو سیاسی استحکام کے لیے لازمی قرار دیا۔ اس کی پیروی کرتے مغل بادشاہ جہانگیر نے اپنی ’’توزک‘‘ میں لکھا ہے کہ اس نے اپنے محل میں زنجیر عدل لٹکائی تاکہ مظلوم لوگ اس کو ہلا کر فریاد کر سکیں اور انصاف حاصل کرسکیں۔ تاریخ سے ہمیں یہ تو پتا نہیں چلتا کہ اس زنجیر نے کتنے افراد کو انصاف مہیا کیا۔
لیکن شبلی نعمانی نے اپنی ایک نظم ’’ عدل جہانگیری‘‘ میں اس کے انصاف کی ایک شاعرانہ مثال دی ہے۔ اس نظم کے مطابق ایک دن نورجہاں محل کی چھت پر کھڑی تھی کہ ایک راہ گیر نے اپنی نظر اوپر اٹھا کر اسے دیکھ لیا۔ اس پر نورجہاں کو اس قدر غصہ آیا کہ بقول شبلی غیرت حسن سے بیگم نے طمنچہ مارا اور راہ گیر کو قتل کر دیا۔
اس پر قاضی کی عدالت میں مقدمہ چلا اور بیگم کے دفاع میں جو دلائل دیئے گئے ان کو سن کر نورجہاں کو قتل کے الزام کے میں بری کردیا گیا۔ جب جہانگیر کو یہ خبر ملی تو اس نے بیگم کے قدموں پر گر کر کہا’’ تو اگر کشتہ شدی آہ چے می کر دامن‘‘ یعنی اگر تو قتل کر دی جاتی تو میں ہائے میں کیا کرتا۔
شبلی کی اس نظم سے ہٹ کر ہم جہانگیر کے کردار کو ردیکھیں گے ۔ اس کی پیدائش اکبر کی بڑی امیدوں کا مرکز رہی تھی لیکن اکبر کی آخری زندگی میں اس نے باپ کے خلاف کئی بغاوتیں کیں۔ یہ خوشامدیوں کے حلقے میں رہتا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ جتنا جلد ہو سکے وہ بادشاہ بن جائے۔ ایک دفعہ بغاوت کے دوران اس نے کسی شخص سے ناراض ہو کر اس کی زندہ ہی کھال کھنچوا لی۔ اکبر کو جب اس کی اطلاع ملی تو اس نے شہزادے کو لکھا’’ شیخو ہم نے تو کبھی زندہ جانور کی کھال بھی نہیں کھنچوائی اور تم انسانوں کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہو‘‘۔
بغاوت کے دوران ہی اس نے ابوالفضل جو اکبر کا قریب مصائب تھا ، اس کے قتل کی سازش کی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اس کا مخالف ہے۔ لہذا جب ابوالفضل دکن سے واپس آرہا تھا تو اس نے بندیلا کے راجہ سے کہا کہ وہ جب اس کی حدود میں آئے تو اس پر حملہ کرکے قتل کر دے۔ ابوالفضل لڑائی میں مارا گیا۔ مغلوں کا دستور تھا کہ جب کسی امیر کی موت کی بادشاہ کو خبر دی جاتی تھی تو اس کا وکیل ہاتھ باندھ کر بادشاہ کے سامنے جاتا تھا۔
جب اکبر کو یہ خبر ملی اسے سخت صدمہ ہوا اور بار بار کہتا تھا ’’شیخو تم نے یہ کیا کیا‘‘ اس غم میں اکبر نے دو دن تک کھانا بھی نہ کھایا۔ اکبر کی زندگی کے آخری ایام میں شہزادہ سلیم کے علاوہ اور کوئی جانشین نہیں تھا۔ اس لیے اسے بار بار معافی دی گئی۔
جب اکبر بستر مرگ پر تھا تو شہزادہ سلیم اس سے آخری ملاقات کے لیے گیا اور آگرہ کے قلعے سے واپس آکر مغل امیر شیخ فرید کے پاس ٹھہر گیا کہ اکبر کی موت کی خبر اسے کب ملتی ہے۔ جب وہ تخت نشین ہو ا تو اسے سب سے پہلے جس مشکل کا سامنا کرنا پڑا وہ یہ تھی کہ اس کے بیٹے خسرو نے اس کے خلاف بغاوت کر دی اور ایک فوج اکٹھی کرکے لاہور کی جانب روانہ ہوا۔ جہانگیر نے گبھراہٹ میں اس کا تعاقب کیا ۔ راستے میں اسے دو مغل امرا ملے جنہوں نے خسرو کی حمایت کی تھی ۔ لہذا بطور سزا اس نے ایک گدھے کی کھال میں اور دوسرے کو بیل کی کھال میں لپیٹ کر سلوا دیا۔
گدھے کی کھال چونکہ جلد خشک ہو جاتی ہے اس لیے اس میں لپٹا امیر جلد مر گیا۔ جب کہ بیل کی کھال والے کو امراء نے معافی دلوا دی۔ راستے ہی میں اسے یہ اطلاع ملی کہ سکھوں کے گرو ارجن سے خسرو کی ملاقات تھی اور اسے انہوں نے دعا دی تھی ۔ اس پر جہانگیر نے گرو ارجن کو قتل کراکر مغلوں اور سکھوں کے درمیان نفرت کی بنیاد رکھی۔
خسرو کو شکست دینے کے بعد وہ لاہور پہنچا اور یہاں سزاؤں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ٹیکسالی دروازے کے باہر باغیوں کو پھانسی دی گئی اور خسرو کی آنکھوں میں سلائی پھروا کر اسے بنیائی سے محروم کر دیا گیا۔ ان حالات میں وہ ہندوستان کا شہنشاہ بنا۔
چونکہ اکبر سلطنت کے تمام اداروں کو مستحکم کر کے گیا تھا اس لیے جہانگیر نے بغیر کسی تردد کے حکومت کی۔ گرمیوں میں معہ لاؤ لشکر کشمیر چلا جاتا تھا۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ ایک ہاتھی پہاڑی سے پھسل کر نیچے وادی میں گرا تو اس وہ چنگاڑ ا اور اس کی گونج وادی میں پھیل گئی۔ جہانگیر کو یہ گونج اتنی پسند آئی کہ اس نے حکم دیا کہ ایک دو ہاتھیوں کو اور پھینکا جائے کہ وہ اس آواز سے لطف اٹھائے۔
جہانگیر شراب کا اس قدر عادی ہو گیا تھا کہ وہ حکومت کے قابل ہی نہ رہا۔ ایک انگریز سیاح تھامس رو جو اس کے دربار میں آیا تھا اس نے لکھا ہے کہ اس نے ایک مرتبہ تھوڑی سی شراب پی تو اس قدر تیز تھی کہ اس کا سر چکرا گیا۔ ملازمین جہانگیر کو مدہوشی کی حالت میں اٹھا کر بستر پر لٹاتے تھے۔ آخر میں وہ خود کہا کرتا تھا کہ مجھے ایک پیالہ شراب اور گوشت کے ایک ٹکڑے کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے اور اسی عالم میں اس نے وفات پائی۔
شبلی کی نظم عدل جہانگیری، شاعری کی حد تو ٹھیک ہے لیکن تاریخ میں ہمیں عدل جہانگیری کی کوئی علامت نہیں ملتی ہے۔
♦
One Comment