عثمان غازی
یہ انٹرویو علی نواز چانڈیو کا تھا مگر اس کا آغاز ایک “سندھی” کے انٹرویو سے ہوا اور ہر سندھی کو علی نواز چانڈیو بنادیا گیا جبکہ یہ منفی کردار ہرقومیت میں ہوتے ہیں۔
یہ اسکٹ اگر سندھی کے بجائے صرف علی نوازچانڈیو تک محدود رہتا تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا اور ایسے درجنوں اسکٹ انور مقصود پہلے معین اختر کے ساتھ کرچکے ہیں۔
اب جب ہر سندھی کو علی نوازچانڈیو بنادیا گیا تو علی نواز چانڈیو کے کریکٹر کو آرام اور حرام خور کے طور پر پیش کیا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ ہر سندھی ایسا ہے، علی نواز چانڈیو کے روپ میں ہر سندھی کئی کئی شادیاں کرکے درجنوں بچے پیدا کرتا ہے۔
اب یہاں انور مقصود نے سیاسی رخ دیا بلکہ اپنا سیاسی نظریہ بیان کیا، انور مقصود نے ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو کرپٹ پیش کیا جو مزاح نگار کا کام نہیں ہے۔
انور مقصود کے مطابق علی نواز چانڈیو جب قرضہ لے کر بار بار مررہا تھا تو اس کی قبر نہیں بلکہ “مزار” بن رہا تھا، اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ سندھ میں سارے صوفیوں کے مزار ان لوگوں کی فرضی قبریں ہیں، جو قرضہ لے کر جھوٹ موٹ مرگئے، مزاروں کو متنازع کرنے کے لئے انورمقصود نے کرپشن کے پیسے سے ان کی تزئین وآرائش کا بھی ذکر کیا۔
انور مقصود نے سندھ کے صوفی شاعر شاہ لطیف کو بھی نہ بخشا اور ان کی شاعری کو کرپٹ لوگوں کے فرضی مزاروں کی زینت قرار دے دیا۔
اسے اکثر افراد نے ڈارک ہیومر قرار دیا جبکہ مزاح سے معمولی شدبد رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ یہ کھلی تضحیک، توہین، تحقیر اور تذلیل ہے، اس اسکٹ کا معیار اتنا پست ہے کہ نام نہاد مزاح کے نتیجے میں ہنسی کا کوئی امکان نہیں پیدا ہورہا۔
انور مقصود نے اپنی معافی میں خود کو سندھی کہہ کر بات ختم کردی مگر اینٹی سندھ میتھالوجی ایک وجود رکھتی ہے، سندھ سے نفرت کی وجہ سیاسی نہیں ہے، آج پیپلزپارٹی دفن ہوجائے، کل سندھ سے نفرت کا کوئی اور جواز تراش لیا جائے گا۔
سندھ سے نفرت کی وجہ سندھ سماج ہے، مذہبی انتہاپسند سندھ سے سیکولر ہونے کی وجہ سے نفرت کرتا ہے، لبرل کو نفرت ہے کہ سندھی روایت پرست ہیں، اسٹبلشمنٹ کو نفرت ہے کہ سندھیوں نے کبھی ان کے گملے میں اگنے والے سیاست دانوں کو ووٹ نہیں دیا، سندھ سے یہی نفرت انگریزوں کو تھی کہ یہ اپنی فطرت میں باغی ہیں۔
سندھیوں کو جاہل، ذہنی غلام اور زندہ لاشیں قرار دینا عام بات ہے، پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا پر آپ سندھ کے مثبت تذکرے کبھی نہیں دیکھیں گے بلکہ کراچی کو سندھ سے الگ بیان کرکے وادی مہران سے جڑی ہر مثبت چیز کو جدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پنجاب میں پنجاب حکومت ہے، بلوچستان میں بلوچستان حکومت ہے، خیبرپختونخوا میں خیبرپختونخوا حکومت ہے مگر سندھ میں سائیں سرکار ہے، یہ نفرت نہیں تو اور کیا ہے؟ پنجاب میں وزیراعلی پنجاب، خیبرپختونخوا میں وزیراعلی خیبرپختونخوا، بلوچستان میں وزیراعلی بلوچستان مگر سندھ میں وڈے سائیں کی حکومت ہے، یہ فرق اور اندازتضحیک بتارہا ہے کہ منظم طریقے سے سندھ کا منفی تاثر پیدا کیا جارہا ہے۔
اگر اینٹی سندھ میتھالوجی کو ناکام بنانا ہے تو سندھ کے مثبت تذکروں کو فروغ دیں، نفرت زدہ ذہنوں کے لئے سندھ کے مثبت تذکرے زہر ہیں، یہ تذکروں کو سن کر دکھ سے مرجائیں گے۔
♦