ایک روح فرسا سانحہ

منیر سامی

گزشتہ روز ٹورونٹو میں ایک روح فرسا سانحہ ہوا۔ جس میں Alek Minassian نامی ایک شخص نے، خبروں کے مطابق، ایک کرائے کی وین کوقیاساً جان بوجھ کر چلاتے ہوئے دس افراد کو ہلاک اور تیرہ کو شدید زخمی کر دیا۔ اس واقعہ کو ٹورونٹو کے شہریوں پر ایک حملہ قرار دیا جارہا ہے۔ ابھی تک اس سانحہ کے محرکات اور مقاصد سامنے نہیں آئے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کینیڈا کے قانون کے مطابق ملزم کو چوبیس گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کر کے اس پر دس افراد کے قتلِ عمد، اور تیرہ افراد کے قتل کی کوشش کی فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔

یہ سانحہ جس علاقہ میں وقوع پذیر ہوا، وہ ہم سے اس لیے قریب تر ہے کہ ہم اور ہمارے احباب وہاں کم از کم پندرہ سال سے رائٹرز فورم، انجمن ترقی پسند مصنفین، اور دیگر انجمنوں کے اجلاس منعقد کرتے رہے ہیں۔ عین اس جگہ جہاں سے یہ سانحہ شروع ہوا ، وہیں ٹورنٹو میں فارسی کتابوں اور ایرانی ثقافت سے متعلق ایک اہم دوکان’پگاہ ‘ بھی واقع ہے۔ ہم اس کی خیریت کی لیے فکر مند ہیں۔ اس علاقہ میں کافی دور تک کاروبار بند ہیں۔ ایک اور اہم قریبی معاملہ یہ بھی ہے کہ ہمارے بیٹے کی ایک دوست کی والدہ اس حادثہ میں بال بال بچ گیئں۔ وہ اس وین کی زد میں تھیں لیکن کسی نے انہیں گھسیٹ کر ہٹا دیا تھا۔ جسے اللہ رکھے۔

اس واقعہ کی خبر پھیلتے ہی مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے بالخصوص مسلمان اس فکر میں گھِر گئے تھے کہ کہیں یہ اسلامی دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہ ہو۔ کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں مباحث، دلائل، اور الزامات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود ٹورونٹو میں دایئں بازو کے نسل پرست افراد نے یہ شوششہ چھوڑدیا تھا۔ اس کو اس حقیقت سے بھی شہہ ملی کہ ملزم آرمینیائی نسل کا فرد ہے، جسے لا علم نسل پرست افراد مشرق وسطیٰ یا لبنان کا سمجھتے ہیں۔

اس واقعہ کی ایک نہایت امید افزا صورت ٹورونٹو کے ایک پولس اہلکار کا رویہ بھی ہے۔ جب یہ وین ایک جگہ جاکر رک گئی تو یہ پولس افسر ملزم کے سامنے آگیا۔ ملزم اس قسم کے اشارے کر رہا تھا کہ شاید اس کے ہاتھ میں کوئی پستول ہے۔ ساتھ ہی وہ ’مجھے مار دو ، مجھے مار دو ‘ کا نعرہ بھی لگارہا تھا۔ پولس آفیسر نے اس وقت اپنا ہتھیار تان لیا تھا۔ لیکن اس نے ملزم کو گولی مارنے کے بجائے کمال ہوشیاری اور مہارت سے ملزم کوزندہ سلامت گرفتار کر لیا۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ ایسے اکثر معاملات میں ملزموں کو فوراً ہلاک کر دیا جاتا تھا۔

جہاں ایک طرف نسل پرست سفید فام افراد مسلم دہشت گردی کی طرف اشارے کر رہے تھے، وہیں شدت پرست مسلم یہ مطالبہ کرنے لگے کہ اگر یہ شخص مسلمان نہیں تھا، اور اس نے اتنے سارے افراد قتل کر دیئے تو اس پر دہشت گردی کا الزام کیوں نہیں لگ رہا۔ اس ضمن میں سفید فام نسل پرست اور مسلم شدت پرست دونوں ہی غلطی پر ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ تفتیش مکمل ہونے پر فردِ جرم میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، یہی کینیڈا کا قانون ہے۔

بعض معلومات کے تحت یہ قیاس اور گمان کیا جا سکتا ہے کہ ملزم شاید کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہو۔ اس نے ٹورونٹو کے ایک اسکول کے Special Kids پروگرام میں تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ پروگرام ان بچوں کے لیے ہیں جو یا تو بہت ذہین ہیں، یا جن میں کچھ ذہنی کمزوری ہے۔ ایسے بچوں کو عام بچوں سے مختلف طور پر تعلیم دی جاتی ہے تاکہ دونوں کی ذہنی ضروریات کا خصوصی خیال رکھا جا سکے۔ ملزم کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ الگ تھلگ رہتا تھا اور اس کی زیادہ دوستیاں نہیں تھی۔ وہ کمپیوٹر کا ماہر بن گیا تھا اور اس نے کچھ خصوصی پر وگرام بھی لکھے تھے۔ اس کے ہم جماعتوں کا کہنا ہے کہ ملزم گاڑی چلانے میں کمزور تھا۔ اس کا کسی سیاسی یا مذہبی شدت پرستی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ کسی سے جھگڑا کرتا بھی نہیں دیکھا گیا تھا۔

یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کینیڈا میں ذہنی معذوری یا ذہنی امراض پر خصوصی سرکاری توجہ دینے کے باوجود سینکڑوں افراد اس مناسب دیکھ بھال اور علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ اب سے کچھ سال پہلے ایک خاتون نے جو شاید ملزم کی ماں ہے، یہ شکایت کی تھی، کہ سرکاری امداد اور طبی سہولتوں میں کٹوتی کی وجہ سے اس کا بیٹا جو Aspergers Syndrome کا مریض ہے، ضروری امداد سے محروم رہ جائے گا۔ یہ بیماری ایک طرح کی ذہنی یا اعصابی بیماری ہے جو Autism کے قریب تر ہے۔ملزم کے کئی طالبِ علم ساتھی اس بات پر متفق ہیں کہ اس کا الگ تھلگ رویہ کسی ذہنی بیماری کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ وہ سب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسی رکیک حرکت نہیں کر سکتا تھا۔

ملزم کے تازہ ترین فیس بک پیغامات میں ایک ایسا پیغام بھی ہے جس میں اس نے Elliot Rodger نامی ایک شخص کی تعریف کی تھی جس نے اب سے چند سال پہلے چھ افراد کو ہلاک کر کے خود کشی کر لی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے صوبہ کوبک میں چھ مسلمانوں کو قتل کرنے والا Alexandre Bissonette بھی اس معاملہ میں دلچسپی رکھتا ہے۔

قیاس اور افواہیں جو کچھ بھی ہوں ، کینیڈا کا نظام معاملہ کی حقیقت تک پہنچنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ یہاں ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر سخت سزا بھی دی جاتی ہے۔ اور ملزم کے ذہنی مریض ہونے کی صورت میں اس کے علاج اور بہبود پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ ہماری ہمدردیاں ہر اس خاندان کے ساتھ ہیں جو اس سانحے سے متائثر ہو ا ہے۔

Comments are closed.