دونوں کوریائی ریاستوں کے اعلیٰ ترین رہنماؤں کی ایک تاریخی ملاقات جمعہ27 اپریل کو ہوئی۔ جنوبی کوریائی صدر مُون جے اِن سے ملاقات کے لیے کمیونسٹ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن آج پہلی بار جنوبی کوریا پہنچے تھے۔
جنوبی کوریا میں گویانگ سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جزیرہ نما کوریا پر 65 برس قبل جو جنگ ختم ہوئے بغیر محض ایک جنگ بندی معاہدے کے ساتھ رک گئی تھی، اس کے بعد سے اور شمالی کوریا کی تاریخ میں کم جونگ اُن وہ پہلے رہنما بن گئے ہیں، جنہوں نے جنوبی کوریا کا دورہ کیا ہے۔
کمیونسٹ شمالی کوریا کے رہنما اُن کے اس دورہ جنوبی کوریا کی علامتی اہمیت انتہائی زیادہ ہے۔ انہوں نے دونوں ہمسایہ حریف ریاستوں کو تقسیم کرنے والی فوجی حد بندی لائن کو عبور کر کے آج جب جنوبی کوریائی سرزمین پر قدم رکھا تو گرم جوشی سے ہاتھ ملا کر ان کا استقبال کرنے کے لیے جنوبی کوریا کے صدر مُون جے اِن ذاتی طور پر موجود تھے۔
گزشتہ 65 برسوں میں جنوبی کوریا جانے والے پہلے شمالی کوریائی رہنما کے طور پر کم جونگ اُن نے بعد میں کہا کہ ایسا کرتے ہوئے وہ ’جذبات سے لبریز‘ تھے۔
جنوبی کوریا میں داخلے کے بعد کم جونگ اُن ہی کی دعوت پر ایک بڑا علامتی قدم یہ بھی تھا کہ یہی دونوں رہنما ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے مشترکہ فوجی حد بندی لکیر پار کر کے کچھ دیر کے لیے شمالی کوریا میں بھی داخل ہو گئے۔
اس کے بعد یہ دونوں سربراہان جنوبی کوریائی علاقے میں واقع سرحدی گاؤں پان مُون جوم میں قائم اس ’پیس ہاؤس‘ یا ’ایوان امن‘ میں چلے گئے، جہاں ان کی پہلی باہمی ملاقات عمل میں آئی۔ 1953ء میں کوریائی جنگ میں فائر بندی کے بعد سے مجموعی طور پر یہ تیسرا موقع ہے کہ شمالی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں کی آپس میں کوئی ملاقات ہوئی ہے۔
شمالی کوریا پر اس کے متنازعہ ایٹمی پروگرام اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید بھی کی جاتی ہے۔
لیکن اس موقع پر کم جونگ اُن نے کہا، ’’میں تاریخ کے ایک نئے باب کے آغاز پر ایک مثبت ابتدائی اشارہ دینے کا عزم لے کر یہاں آیا ہوں‘‘۔
اسی طرح جنوبی کوریائی صدر اِن نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی ایک ایسا دوطرفہ معاہدہ طے پا سکے گا، جو امن کے خواہش مند دونوں کوریائی ریاستوں کے تمام باشندوں کے لیے ایک تحفہ ہو گا۔‘‘ اس سمٹ کے موقع پر دونوں رہنماؤں کے ساتھ ان کے قریبی معاونین بھی تھے۔
شمالی کوریائی رہنما کے ساتھ ان کی ہمشیرہ اور قریبی مشیر کم یو جونگ کے علاوہ کمیونسٹ کوریا کے بین الکوریائی تعلقات کے شعبے کے سربراہ بھی تھے۔ اسی طرح جنوبی کوریائی صدر کے ہمراہ ان کے ملک کے انٹیلیجنس سربراہ اور چیف آف سٹاف بھی تھے۔
اس سمٹ کے پہلے دور کے بعد مقامی وقت کے مطابق جمعے کو بعد دوپہر تک ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس ملاقات میں دونوں لیڈروں نے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے علاوہ قیام امن کے امکانات پر بھی بات چیت کی۔
جنوبی کوریائی صدر کے دفتر کے ایک ترجمان نے بعد ازاں بتایا، ’’صدر مُون جے اِن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے جزیرہ نما کوریا کو غیر ایٹمی خطہ بنانے کے موضوع پر انتہائی سنجیدگی اور ایمانداری سے تبادلہ خیال کیا‘‘۔
گویانگ سے موصولہ تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق اس سمٹ کے بعد اس موقع پر دی جانے والی سرکاری ضیافت میں دونوں ممالک کی خواتین اوّل بھی شریک ہوں گی۔
پاکستانی ریاست کو کم ازکم شمالی کوریا سے سبق حاصل کرنا چاہیے ۔ جنوبی ایشیائی خطہ بھی پچھلے ستر سالوں سے جنگ کا شکار ہے۔ جس کا نقصان اس خطے کے عوام اٹھارہے ہیں۔پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے کی وجہ سے اس خطے میں تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ پاکستان اپنے تین ہمسائیوں، افغانستان، بھارت اور ایران کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ تینوں ممالک پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کاالزام لگاتے ہیں۔ تینوں ہمسائے آپس میں دوطرفہ تجارت سمیت سٹرٹیجک معاہدے بھی کر چکے ہیں ۔
DW/News Desk
One Comment