صوبہ بلوچستان کے صدر مقام میں ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے دو افراد کو مسلح حملہ آوروں نے ہلاک کر دیا ہے۔ دوسری جانب جنوبی وزیرستان میں چار افراد کو رات کی تاریکی میں قتل کر دیا گیا۔
کوئٹہ میں نامعلوم حملہ آوروں نے ایک دوکان پر بیٹھے دو افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ ان دونوں کا تعلق پاکستان کی ہزارہ شیعہ کمیونٹی سے بتایا گیا ہے۔
مقامی پولیس اہلکار کے مطابق حملہ آور موٹر سائیکلوں پر سوار تھے اور وہ واردات کے بعد فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ پولیس نے اپنا تفتیشی عمل شروع کر دیا ہے۔ کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن ماضی میں ایسی وارداتوں میں سخت عقیدے کے حامل سنی عسکری گروپ ملوث رہے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں کوئٹہ کی ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے افراد پر یہ چھٹا حملہ ہے۔ کوئٹہ میں گزشتہ ہفتے کے دوران بھی ہزارہ شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے دوکاندار کو قتل کر دیا گیا تھا۔
ریاستی اداروں کی مسلسل خاموشی کے خلاف کوئٹہ میں انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی ہے۔اس سلسلے میں بھوک ہڑتالی کیمپ کوئٹہ پریس کلب کے باہر قائم کیا گیا ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق انھوں نے تادم مرگ بھوک ہڑتال ان دو دکانداروں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعے کے بعد شروع کی جن کو ہفتے کے روز شہر کے مصروف ترین علاقے جمال الدین افغانی روڈ پر فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا تھا۔
جلیلہ حیدر نے بتایا کہ ایک مرتبہ پھر گذشتہ ایک ماہ سے ہزارہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک بھوک ہڑتال کا سلسلہ جاری رکھیں گی جب تک پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ بذات خود یہاں نہیں آتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے ہزارہ قبیلے کے دس ہزاربچے یتیم ہوچکے ہیں۔ ’حکمرانوں کو آنا ہو گا اور ان بچوں کو جواب دینا ہوگا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’حکمرانوں کو آکر یہ بناتا ہوگا کہ ہزارہ قوم کو جنگی معیشت کی بھینٹ کیوں چڑھایا جارہا ہے۔‘
جمال الدین افغانی روڈ پر ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے دو دکانداروں کی ہلاکت کے خلاف ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں کے علاوہ دیگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی قندہاری بازار اور مغربی بائی پاس پر احتجاج کیا تھا۔یاد رہے کہ کوئٹہ میں بھی سیکیورٹی کے نام پر کئی چیک پوسٹیں ہیں لیکن شاید وہ حملہ آوروں کےلیے نہیں ہیں۔
ہزارہ قبیلے کے لوگ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد پر کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔یاد رہے کہ ان شدت پسند تنظیموں کو ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے۔
رواں ماہ کے دوران شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افرادپر مجموعی طور پرٹارگٹ کلنگ کے چار حملے ہوئے۔ان میں سے تین واقعات میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا جن میں پانچ افراد ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔
شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ہزارہ قبیلے کے افراد پر حملوں کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے جس میں ایک سنی تنظیم کا عہدیدار ہزارہ کمیونٹی کے خلاف تقریر کر رہا ہے۔
رواں سال سرکاری سطح پر قائم انسانی حقوق سے متعلق ادارے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سنہ 2001 سے 2017 تک 16سال کے دوران ایسے حملوں میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے 525 افراد ہلاک اور سات سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
اگرچہ ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کے اقدامات کے باعث پہلے کے مقابلے میں ان واقعات میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔
بلوچستان میں ایک جانب بلوچ عوام کو اپنے حقوق مانگنے پر اغوا اور قتل کیا جارہا ہے تو دوسری جانب ہزارہ شیعہ کی منظم انداز سے نسل کشی کی جارہی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس قتل عام میں ریاستی ادارے اور ان کی طفیلی عسکریت پسند تنظیمیں شامل ہیں ۔اسے پاکستانی عوام کی بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے ریاست اپنے نام نہاد سٹریٹجک مفادات کے لیےلاکھوں شہریوں کوقربان کرچکی ہے اور یہ سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہاہے۔
DW/BBC/News Desk