لطیف بلوچ
پریس کلب کوئٹہ کے سامنے ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ جلیلہ حیدر اہل تشیع کی نسل کشی کے خلاف گزشتہ دو دن سے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہوئی ہے اور وہ مطالبہ کررہی ہے کہ آرمی چیف کوئٹہ آکر ریاستی دہشت گردی کے شکار ہزاروں شہیداء کے بیواؤں اور بچوں کے سوالات کا جواب دیں ۔یہ اُن کا مطالبہ ہے لیکن میرے خیال میں قاتل سے انصاف کی توقع نہیں رکھنا چاہیے جو تمہارے سروں کے قیمت وصول کررہے ہوں اُنھیں بچوں کے یتیم ہونے اور عورتوں کے بیوہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
آج لائیو ویڈیو میں میں نے دیکھا بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیرِداخلہ سرفراز بگٹی اعلیٰ سرکاری حکام کے ہمراہ بھوک ہڑتالی کیمپ آئے تھے اور بلند و بانگ دعوے کررہے تھے کہ میں بااختیار ہوں میرے حکم پر فلاں کو مارا گیا فلاں کو مارا گیا لیکن سرفراز بگٹی یہ نہیں بتائے کہ جو دہشت گرد ریاستی اداروں کے حراست میں تھے اور اُنہوں نے اقبال جرم بھی کئے تھے پھر اُنھیں عدالتوں میں کیوں پیش نہیں کیا گیا اور اُن کو جعلی مقابلوں کے ذریعے مارا گیا یہ صرف اس لئے کیا گیا کہ اگر وہ عدالت میں بیان دیتے تو تمام حقائق سامنے آتے کہ اُنہوں نے کیوں اور کس کے حکم پر شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو چن چن کرقتل کئے تھے۔
اور وہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے وکلاء برادری پر خودکش حملے کے ماسٹر مائینڈ کو بھی جہنم واصل کیا۔ اگر یہ ان واقعات میں ملوث تھے میرے خیال میں یہ جن لوگوں کا سرفراز بگٹی فخریہ انداز سے نام لے رہے تھے اصل مجرم وہ نہیں تھے وہ کرایہ کے قتل تھے جنھوں نے کس اور کے حکم کی بجاآوری کرکے انسانوں کو خون میں لت پت کئے۔ اُن در پردہ قوتوں کو چھپانے کے لئے ان دہشت گردوں کو کورٹ میں پیش کرنے کے بجائے دوران حراست ماورائے قانون جعلی مقابلوں میں مارا گیا۔ اب اُن کا تذکرہ کرکے فتح کے جھنڈے گاڑنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے ۔
بلوچستان میں ریاست نے لشکر جھنگوی کو درآمد کیا اور مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کو باقاعدہ ایک منظم پلاننگ کے تحت پروان چڑھایا گیا ۔کیونکہ بلوچ قوم مذہبی منافرت اور فرقہ واریت پر یقین نہیں رکھتی اور تمام مذاہب و مسالک کا احترام کرتی ہے۔
صدیوں سے شیعہ اورمسیحی بلوچستان میں آباد ہیں لیکن کسی نے اُن کو خراش تک نہیں پہنچائی لیکن آج ریاست بلوچ قومی تحریک کی عالمی سطح پر اُبھار اور پذیرائی ختم کرنے کے لئے مذہبی دہشت گردی کو پروان چڑھا رہی ہے اور وہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ بلوچ ایک تنگ نظر قوم ہے لیکن دنیا اب پاکستان کی مکر و فریب کو جان چکی ہے۔
سرفراز بگٹی خود نہیں آیا تھا بلکہ ایجنسیوں کے طرف سے بھیجا گیا تھا اور وہ دبے الفاظ میں جلیلہ حیدر کو دھمکی دیکر چلا گیا۔ وہ جلیلہ حیدر کو کہہ رہا تھا آپ نے پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسہ میں تقریر کی تھی اور آپ منظور پشتین کی حمایت کرتی ہو آئین میں آپ کو یہ حق دیا گیا ہے لیکن آئین میں یہ لکھا ہے اس سے آگے میں اُنھیں نہیں سُن سکا کہ وہ کہا کہنا چاہتا تھا کیونکہ ویڈیو یہاں بند ہوگئی تھی، میرے خیال کے مطابق وہ یہ کہا ہوگا کہ آئین میں فوج اور خفیہ اداروں کے خلاف بات کرنا جرم ہے۔
بلوچ پاکستان کے اس آئین کو تو خیر تسلیم نہیں کرتے لیکن سرفراز بگٹی آئین کو ایک مقدس دستاویز سمجھتا ہے لیکن ہمیشہ ایجنسیوں کے غیر آئینی اقدامات کی حمایت کرتا ہے حکومت کے خاتمہ ، قدوس بزنجو کو جس طرح وزیراعلی بنایا گیا ، چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ، باپ پارٹی کا قیام کیا یہ آئین کے تحت عمل میں آئے۔
ظاہری طور پر ایسا دکھایا جارہا ہے لیکن درحقیقت ان تمام اقدامات میں انٹیلی جینس ادارے ملوث ہے اور سرفراز بگٹی سے کوئی یہ پوچھے کہ جس نام نہاد آئین کو تم مانتے ہو اور اُس پر ایمان رکھتے اُس میں یہ کہا لکھا ہے کہ ریاست کے ملازم اور عوام کے نوکر فوج اور خفیہ ادارے سیاست میں مداخلت کریں ۔
پاکستان کے آئین میں کیا یہ لکھا ہے کہ شہریوں کو ماورائے قانون اُٹھا کر غائب کیا جائے، سیاسی اور بنیادی انسانی حقوق پر پابندی لگائی جائے، حقوق مانگنے والوں کو غدار قرار دیا جائے منظور پشتین تو اب تک کہہ رہا ہے کہ میں آئین میں دئیے گئے حقوق مانگتا ہوں پھر وہ کیوں غدار ٹھہرا۔
ہزارہ کہہ رہے ہمیں کچھ نہیں چاہیے ہمیں جینے کا حق دیا جائے پھر کیوں دوسروں کے پراکسی بن کر اپنے شہریوں کی قتل عام کرواتے ہیں،آئین میں یہ کہاں لکھا ہے کہ دوسروں کے سرزمین اور وسائل پر قبضہ کرکے لوٹ مار کرو ۔ پاکستان میں آئین کی کوئی اہمیت نہیں آئین ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے جب جرنیلوں کا دل چاہے اپنے جوتے پر نوک پر آئین کو رکھتے ہے۔
شکر ہے بلوچ اس نام نہاد آئین کو نہیں مانتے۔ ہزارہ اور پشتونوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے نام نہاد آئین کے فریب سے نکل کر حقوق کے بجائے قومی آزادی کے لئے جدوجہد کریں اور پاکستان کے تحفظ کے نام پر اپنے بچوں کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے اپنے آزادی، خوشحالی اور آزاد وطن کی حصول کے لئے قربانی دیں جدوجہد کریں۔
♦