یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے ردعمل میں یورپ میں بھی کرسچین بنیادپرستی رواج پاتی جارہی ہے۔ حالیہ کچھ سالوں میں بنیاد پرست سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ جرمنی میں حالیہ انتخابات میں بنیاد پرست جماعت اے ایف ڈی نے بھی پارلیمنٹ میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ جبکہ ڈنمارک اور آسٹریا میں نقاب کےاستعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
جرمنی میں بھی مذہب کا سیاسی استعمال شروع ہو چکا ہے۔ جرمن صوبے باویریا کی متعدد سرکاری عمارتوں کے مرکزی دروازوں کے اوپر صلیب کا نشان لگانے کے فیصلے پر عملدرآمد ہو گیا ہے۔ جرمنی کے بعض سیاسی، مذہبی اور سماجی حلقے اس فیصلے کو متنازعہ قرار دیتے ہیں۔
جرمنی کے جنوبی ریاست باویرا میں کئی سرکاری عمارتوں کے داخلی دروازوں پر صلیب کا نشان لگانے کو ’شناختی سیاست‘ کا سلسلہ قرار دیا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں نے اس عمل کو ریاستی انتخابات کے لیے اہم قرار دیا ہے۔ باویریا کی سرکاری عمارتوں کے دروازوں پر صلیب لگانے کی تجویز ریاستی وزیراعلیٰ نے دی تھی۔
باویریا کے قدامت پسند وزیراعلیٰ مارکوُس زوئڈر نے رواں برس اپریل میں کہا تھا کہ صلیب باویریا کی شناخت کا نشان ہے اور یہاں کے باشندوں کی زندگیوں اور معاشرت کا حصہ ہے۔ اُن کی اس تجویز پر مختلف سیاسی و سماجی و مذہبی شخصیات نے اعتراضات بھی اٹھائے ہیں۔
اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے کہ زوئڈر ایک مذہبی نشان کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس متنازعہ اقدام سے زوئڈر ریاستی انتخابات میں مذہبی نشانات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ووٹرز کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش میں ہیں۔
اس ریاست میں اسلام مخالف اور مہاجرین مخالف انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی) نے بھی اپنی مہم سے کرسچن سوشل یونین کے بے شمار ووٹرز کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔
باویریا میں ریاستی اسمبلی کے الیکشن رواں برس اکتوبر میں ہو رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ مارکوس زوئڈر کے صلیب آویزاں کرنے کے فیصلے پر اسی صوبے کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ نتاشا کوہنن کا کہنا ہے کہ زوئڈر صلیب کے غلط استعمال میں مصروف ہیں۔
باویریا کی ہمسیایہ ریاست باڈن ورٹمبرگ کے وزیر اعلیٰ ونفریڈ کریٹشمان نے بھی مارکوس زوئڈر کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اُن کی وہ ایک تصویر، جس میں وہ صلیب تھامے ہوئے کھڑے ہیں، حقیقت میں کسی ویمپائر فلم کے منظر لگتا ہے۔
مارکوس زوئڈر کے اس اقدام کی سب سے سخت مذمت کارڈینل رائنہارڈ مارکس کی جانب سے سامنے آئی ہے۔ رائن ہارٹ جرمنی میں کیتھولک پادریوں کی مرکزی تنظیم کے صدر بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر صلیب کو ثقافتی نشان کے طور پر لیا گیا تو اس کی مذہبی وقعت کوئی سمجھ نہیں سکے گا۔ کارڈینل مارکس نے یہ بھی کہا کہ صلیب کا یہ استعمال اِسے ریاست سے بیدخل کرنے کے مترادف ہے اور ایسے استعمال سے اجتناب ضروری ہے۔
DW/News Desk
♦