آصف جاوید
ملّاؤں نے پاکستان میں دین کے نام پر دہشت اور بدمعاشی کا بازار گرم کررکھا ہے۔ ملّائیت دین کے نام پر ایک منظّم دہشت گردی ہے۔ پاکستان میں ملّاؤں کے لئے دینِ اسلام ایک منافع بخش تجارت ہے۔ ملّاؤں نے منبر و محراب کےذریعے مسلمانوں (معصوم انسانوں) کے ذہنوں کو اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے۔ ان کا سارا کاروبار خوف کی بنیاد پر قائم ہے۔ اللہّ کا خوف، آخرت کا خوف، دوزخ میں جلائے جانے کا خوف، اللہّ کے عذاب کا خوف۔ غرض یہ کہ یہ خوف ہی ہے جس کی بنیاد پر ان کا تسلّط قائم ہے۔
آپ ملائیت کو ایک ان دیکھے خدا کی ” جبّاری اور قہاری” کا خوف بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ خوف زدہ، ڈر پوک اورکمزور لوگوں کی ذہنی کشمکش اور شخصیت کی اظہاری کیمیا ہے۔ اگر آپ کسی ملّا سے گفتگو کریں تو آپ کو ایک بات کا واضح طور پر احساس ہوگا کہ ان میں سوچ و بچار، جستجو، تلاش وتحقیق ، چھان بین، تجزیہ اور تجربہ، منطقی فکر، فہم و استدلال کی فطری جبلّت کی معذوری اور غیر موجودگی کی علامات واضح طور پر موجود ہوتی ہیں۔ اورآنکھ بند کرکے یقین اور عقیدے کی ضدّی علامات واضح اور ایک طاقتور رویّے کے طور پر موجود ہوتی ہیں۔
میں ایک زمانے سے لوگوں سے کہتا آرہاہوں کہ ملّائیت ایک ذہنی مرض ہے، اور نفسیاتی بیماری کا نام ہے۔ جس کا مریض (مولوی) سادہ لوح انسانوں پر خوف طاری کرکے ، ان کو ڈرا دھمکا کر اپنے اثر میں رکھتا ہے۔ ملّائیت جنون کی شدید ترین کیفیت کا علامتی اظہار ہے، یہ ایک “ابنارملٹی “ہے، میڈیکل ٹرمنالوجی کی زبان میں اس کو مینٹل ڈس آرڈر کہتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے دانشور ارشد محمود کی کرم فر مائی کی وجہ سے جناب سبطِ حسن کی ایک تحقیق کا حوالہ نظر سے گزرا اور مجھے ایسا لگا کہ ملّائیت کے بارے میں میری اپنی فلاسفی کو میرے روحانی استاد محترم اور عظیم دانشور جناب سبطِ حسن نے بھی سند عطا فرمادی ہے۔
ملّائیت کے بارے میں جناب سبطِ حسن کے الفاظ کی سند قابل غور ہے
“ملائیت کا تعلق کسی خاص مذہب اور ملک سے نہیں۔ بلکہ عالمگیر ذہنی کیفیت ہے۔ ایک طرز فکر و عمل ہے۔ جو عقلی دلیلوں سے نہیں بلکہ ڈرا دھمکا کر اپنے عقائد دوسروں سے منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ سادہ لوحوں کے دلوں میں خوف کا زہر گھولتی ہے۔ اور لوگوں کو اطاعت و بندگی پر مجبور کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے، علما و فقہا نے سینکڑوں برس پہلے جو کچھ لکھ دیا، اس کو بے چون وچرا قبول کرلو۔۔خواہ ان کی باتیں کتنی ہی خلاف عقل کیوں نہ ہوں۔ رعونت اور خشونت ان کی سرشت ہے۔ اس کا دل محبت اور دردمندی کے جذبات سے خالی ہوتا ہے۔ چارہ سازی اور غمگساری اس کا شیوہ نہیں، وہ گرے ہوؤں کو سہارا دینے کی بجائے ان کی تواضع لعنت ملامت کی ٹھوکروں سے کرتی ہے۔ ملّائیت کفروالحادکے فتوے صادر کرکے اصلاح کے سب دروازے بند کردیتی ہے۔ ۔۔۔۔(سبط حسن۔۔افکار تازہ) ۔
ملّائیت کا المیہ یہ ہے کہ یہ طبقہ لوگوں کو غربت کے خاتمے، دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے نظام کے خلاف جدوجہد کرنے کی بجائے صبر و قناعت، اللہّ کی مرضی پر راضی بہ رضاء ہونے اور اپنی تقدیر سے سمجھوتہ کرنے جیسی خرافات، لوگوں کے ذہنوں میں ڈال کر انہیں نہ صرف اچھّی زندگی سے دور رکھنے، بلکہ معاشی خوشحالی کے حصول سے دور رکھ کر انہیں نسل در نسل محتاج بنانے میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دیتا ہے۔ ملّائیت اشرافیہ کو ان کی ناجائز ز یادتیوں پر اخلاقی جواز اور ارتکازِ دولت کو تحفظ دینے میں معاونت کا باعث بھی بنتی ہے۔
نتیجتاً معاشرے میں مذہب کے نام پر غریبوں میں غربت جیسی لعنت پر اطمینان اور سمجھوتہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ملّائیت کی طرف سے اس طرح کی ذہنی تربیت کی جاتی ہے کہ دنیا کی زندگی عارضی زندگی ہے، غربت کی آزمائش ہماری پارسائی کا امتحان ہے اور اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے، سارے انعام و اکرام آخرت کی زندگی میں ہیں، دنیا تو صرف آزمائش کی جگہ ہے۔ انسان کے لئے جائز دولت بھی بے سکونی اور عدم اطمینان جیسی کیفیات پیدا کرتی ہے۔ عبادت میں خلل ڈالتی ہے ، لہذا غربت میں خوش رہنا چاہئے۔
کسی ملّا نے اج تک دنیا میں ایسی کوئی تحقیق پیش نہیں کی جس نے بنوع نوعِ انسان کی خدمت کی ہو۔ انسانی زندگی میں آسانی اور راحت پیدا کی ہو، ملّائیت کا توڑ حصول علم اور تحقیق و جستجو ہے۔ انسانی عقل کا کمال یہ ہے کہ اس نےماورائے عقل و فطرت باتوں جس کو ملّا غیب کا علم کہتا ہے بالکل بھی اہمیت نہیں دی ہے ، بلکہ سوچ، تحقیق، ایجاد اور ہر اس چیز پر توجہ مرکوز رکھی جو انسان کی زندگی کو آسان بناتی ہو اور انسانی زندگی کی مشکلات آسان کرتی ہوں۔
♦
One Comment