علی احمد جان
پورے ملک میں جمہوریت کی علمبردار، اپنی مظلومیت کا رونا رونے والی اور ثنا خوان تقدیس ووٹ مسلم لیگ نون کی حکومت نے جاتے جاتے گلگت بلتستان کےلوگوں پر صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک ایسا حکم نامہ نافذ کردیا جس کے تحت اب یہ علاقہ عملی طور پر ایک نوآبادی بن گیا ہے جہاں انگریز استعمار کے وقت میں متحدہ ہندوستان اور جنوبی افریقہ سے زیادہ استبدادی قوانین نافذ ہوچکے ہیں جس میں تمام اختیارات کا منبع وزیر اعظم پاکستان کی وہ ذات ہے جس کے انتخاب اور احتساب میں یہاں کے لوگوں کی رائے شامل نہیں۔
حکومت کے جرم اور خیانت کا ثبوت یہ ہے کہ اس حکم نامہ کی دستاویز کو خفیہ رکھا گیا جس کی کوئی نقل ، میڈیا، پریس اور کسی ممبر سمبلی یا دوسرے شخص کو نہیں دی گئی جو ان قوانین سے براہ راست یا بالواسطہ متاثر ہوسکتا ہے یا دلچسپی رکھتا ہو۔ ابتدا میں جب حکم نامہ کابینہ اور قومی سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا تو مقتدر کہلانے والی قوتوں کی طرف سے مخالفت کی حوصلہ افزا خبریں بھی آئیں لیکن چند دنوں کے بعد وزیر اعظم خاقان عباسی نے گلگت بلتستان اسمبلی کے اندر حزب اختلاف کی بھرپور مخالفت و مزاحمت ور شہر کی سڑکوں پر عوام کے شدید احتجاج کے باوجود نافذ کرنے کا اعلان کردیا۔
جس سے یہ تاثر ملتا ہےکہ گلگت بلتستان کے معاملے پر راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور سب ہی یہاں ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں مقامی آبادی کو محکوم بنانا مقصود ہے ۔ اس حکم نامہ کو اب تک خفیہ رکھا گیا ہے حالانکہ مسلم لیگ کے راہنما اپنی انتخابی مہم میں اس کو اپنی ایک بہت بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور میڈیا اپنی کم علمی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے اس بات کو عیاں کرنے سے قاصر ہے۔
اس حکم نامہ کے یک طرفہ نفاذ کا فوری رد عمل یہ ہواکہ ایوب، بھٹو، ضیاء، نواز شریف اور مشرف سب پاکستانی حکمرانوں کو بلا تفریق پھولوں کے ہار پہنا کر خوش آمدید کہنے کی روایت والی سر زمین پر خاقان عباسی کا استقبال ان کے ہیلی کاپٹر کی طرف جوتے دکھا کر کیا گیا۔ جاتی ہوئی مسلم لیگ کی حکومت نے مگر پرواہ نہیں کی اور اس بات پر مصر رہی کہ گلگت بلتستان پر اس کی اس مہربانی اور کرم نوازی کو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائیگا۔
پاکستان انتخابی عمل سے گزر رہا ہے جہاں اب ایک نئی حکومت کے لئے لوگ اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ملک میں انتخابات میں حصہ لینے کے لئے مختلف سیاسی جماعتیں اپنے امید واروں کو جو ٹکٹ دے رہی ہیں اس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا وسطی اور شمالی پنجاب میں ٹکٹ لینے کوئی تیار نہیں تو مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کا ٹکٹ سندھ اور بلوچستان میں ردی کا کاغذبن چکا ہے، صرف کراچی میں ایم کیو ایم حصے بخرے کرکے میدان کسی حد تک سب کے لئے کھلا رکھا گیا ہے ورنہ چند سال پہلے وہاں بھی داخلہ بند تھا۔
ہمیں انتخابات سے پہلے ہی معلوم ہے کہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں کس کی حکومت بننے کے امکانات ہیں ۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی اور وفاق کی زنجیر کہلانے والی پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اپنا جھنڈا لگانے کے لئے کسی غریب کے کٹیا کی چھت تک میسر نہیں تو سینٹ کے انتخابات بلوچستان سے جیتنے کے دعویدار عمران خان کو اس صوبے کے موروثی سیاستدانوں کے نئے بننے والے انتخابی اتحاد (باپ )نے عاق کردیا ہے۔
نواز شریف تو پنجاب کے علاوہ کہیں جانے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتا کیونکہ یہیں پر اس کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ ان حالات میں کسی حد تک صرف خیبر پختونخواہ اور مکمل طور پر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہی ہیں جہاں وفاقی سیاسی جماعتوں کا اثررسوخ ہے اور انتخابات میں لوگ پاکستان کے ساتھ جڑے رہنے کی خواہش کا اظہاروفاقی جماعتوں کو ووٹ دے کر کرتے ہیں۔
مگر گلگت بلتستان میں اس حکم نامہ کے زریعے ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں کہ لوگوں کا وفاقی جماعتوں اور وفاق کی سیاست پر سے اعتماد اٹھ جائے اور یہاں بھی لوگ اپنے مقامی مسائل کی سیاست کریں اور گروہی سیاست کا شکار ہوں۔ اگر مقتدر قوتوں کی بھی یہی مرضی و منشا ہے اور مطمح نظر ہے تو مزید کچھ کہنے کی گنجائش کم رہ جاتی ہے۔
انگریزوں کے زمانے سے ہی ریاست جموں و کشمیر میں رائج قانون شہریت (سٹیٹ سبجیکٹ رول) کے مطابق یہاں کے باشندوں کے حق باشندگی کوتحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت ریاست کے پشتنی باشندوں کے علاوہ باہر سے کسی بھی شخص کو ریاست میں مستقل بنیادوں پر زمین یا املاک خریدنے کی اجازت نہیں اور نہ کسی غیر کشمیری کو شہریت یا با شندگی دی جاسکتی ہے۔ اس قانون کے تحت ریاست کے کسی بھی مستقل باشندے سے اس کی ساری ملکیتی جائیداد اور زمین خرید کر اس کو حق باشندگی اور شہریت سے محروم بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اس قانون نے ریاست کے شہریوں کو جہاں ان کی حق باشندگی کی ضمانت دی ہے وہاں اس قانون نے ریاست کو بیرونی آبادی کے دباؤ اور یلغار سے بھی تحفظ فراہم کیا ہے۔ اگر یہ قانون نہ ہوتا تو آج جموں و کشمیرکے مقامی کشمیری بھی مقبوضہ فلسطین کی طرح اقلیت میں بدل کر اپنے ہی گھر میں غلام بن جاتے۔ سری نگر کے مسلمانوں اور جموں کے ہندوؤں کے بیچ لاکھ اختلافات اپنی جگہ مگر سب ایک بات پر متفق ہیں کہ جموں و کشمیر سے حق باشندگی اور شہریت کے قانون کو ختم نہیں کیا جائیگا صرف اسی وجہ سے ہندوستان کی کسی بھی حکومت کو اس قانون کے ساتھ چھیڑنے کی جرات نہیں ہوئی۔
گلگت بلتستان میں کافی عرصہ پہلے ہی شہریت کے اس قانون کا غیر قانونی طور پر خاتمہ کیا گیا تھا (کب کیسے کا آج تک پتہ نہ چل سکا) اور حالیہ حکم نامہ گلگت بلتستان آرڈر 2018 ء میں شہریت کی نئی تشریح کی گئی جس کے تحت پاکستان کا ہر شہری یہاں کا شہری متصور ہوگا۔ اس نئی تشریح اور توضیح پر یہاں کے لوگوں کی طرف سے ناپسندیدگی ایک طرف مگر اس کے نتائج پر غور نہ کرنا یا اس کی طرف توجہ نہ دینا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
ایک طرف حکومت پاکستان کا کہنا یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر سے جدا کرنے سے استصواب رائے میں یہاں کے لوگوں کی رائے شامل ہونے کا احتمال ہے اور دوسری طرف یہاں شہریت کا قانون تبدیل کرکے یہاں غیر مقامی باشندوں کی آباد کاری کے لئے زمین ہموار کی گئی ہے جن کی استصواب رائے میں شرکت ممکن نہیں۔
کیا گلگت بلتستان میں حق ملکیت کی تحریک کے بانی اور پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر امجد ایڈوکیٹ کے اس سوال پر غور نہیں کرنا چاہیئے کہ مقامی لوگوں کو جموں و کشمیر کے دیگر علاقوں کی طرح حق باشندگی کے تحفظ اور غیر مقامی لوگوں کی یلغار کو روکے بغیر گلگت بلتستان کو کل اگر مسئلہ کشمیر پر استصواب رائے ہو بھی گیا تو شامل کیسے کیا جائیگا اور کل اگر ہندوستان نے جموں و کشمیر میں بھی ایسا کیا تو اس کو کیسے روکا جا سکے گا؟
اگر گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا بھی گیا ہے تو اس کا فائدہ کم از کم گلگت بلتستان کے لوگوں کو پاکستان میں بسنے والے دیگر علاقوں کے لوگوں کی طرح یکساں شہری حقوق دے کر پہنچانا چاہیئے نا کہ ان کو حاصل شہریت اور حق ملکیت کے تحفظ کے حقوق کو بھی چھین کر۔
گلگت بلتستان آرڈر31مئی2018 ء کو مسلم لیگ کی حکومت کے آخری دن رات کے اندھیرے میں صدر سے دستخط کرواکر واپس تجوری میں رکھ دیا گیا ہے جس کی گزٹ میں شائع شدہ دستاویز ابھی تک نظر نہیں آئی۔ جب اس حکم نامہ کی کوئی نقل مل جاتی ہے تو حکومت کی طرف سے اس کے بمطابق اصل نہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ جاری کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس پر ایک باقاعدہ گفتگو اور بات چیت نہ ہوپائی ہے۔
حکومت کی طرف سے عوامی حکم نامہ کو چھپانے کی اس دانستہ گھناؤنی حرکت نے شکوک و شبہات کو مزید تقویت دی ہے کہ اس میں خیر کی بات کم ہی ہے۔ اس حکم نامہ کے اجراء کے ایک مہینے کے اندر ہی رونما ہونے والے تین واقعات نے لوگوں کے دلوں میں موجود شکوک و شبہات کو یقین میں بدل دیا ہے کہ یہ حکم نامہ دراصل اس علاقے میں ایف سی آر کے قانون کی واپسی اور افسر شاہی راج کے مترادف ہے ۔ گلگت بلتستان میں اپنے حسن و جمال کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول اور ملک بھر میں سب سے زیادہ پڑھے لوگوں کے ضلع ہنزہ میں ڈپٹی کمشنر نے ایک سرکاری یونیورسٹی کی تعمیر کے واسطے حصول اراضی کے لئے لوگوں کو اس حکم نامہ میں حاصل اختیارات کے تحت جیل بھیجوانے کی دھمکیاں دیں ۔
اب یہ بات چل ہی رہی تھی کہ ضلع گلگت کے ڈپٹی کمشنر نے ائیر پورٹ کے آس پاس درختوں کی کٹائی کا معاوضہ نہ دینے پر شہری ہوا بازی کے مقامی عہدیدار کو گرفتار کروادیا حالانکہ سب ہی یہ جانتے ہیں کہ ایک مقامی عہدیدار کے اختیار میں معاوضہ کی رقم دینا یا یا نہ دنیا نہیں ہوتا۔ لوگوں میں غم و غصے کی لہر جاری تھی کہ سیاچن اور گھیاری کی سرحد پر واقع ضلع گانچے کے ہیڈ کوارٹر خپلو میں ہسپتال کے دورے کے دوران گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری نے ایک سال میں ۳۵ عورتوں کی اموات کی شکایت پر گائناکالوجسٹ کی دستیابی کو ٹیکس دینے سے مشروط کرکے حد ہی کردی۔
چیف سیکرٹری کے ان زریں خیالات کو سن کر لوگوں میں غم و غصہ کے علاوہ مایوسی بھی پیدا ہوئی کہ ہر وقت سرحد پر ملک کا دفاع کرتے ان لوگوں کو ٹیکس نہ دینے کے طعنہ دے دیکر ایک ریاستی اہلکار نے ملک اور قوم کی کون سی خدمت کی ہے۔ اگر یہ سارے واقعات محض اتفاقات ہیں تو اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں تو آنے والے وقتوں میں مزید ایسی خبروں کی امید ہے۔
♥