محمد حسین ھنرمل
ضرب عضب اور ردُالفساد آپریشن کے بعد ارض ِ وزیرستان سے مفسدین کا مکمل طور پر صفایا ہونا چاہیے تھا۔ کامن سینس کا بھی یہی تقاضا ہے کہ چار سال تک آئی ڈی پیز رہنے کے بعد وزیرستان کے قابل رحم پشتونوں کے تما م مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہوں۔ لیکن بدقسمتی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور حال یہ ہے کہ وزیرستان کے پشتونوں کی بدقسمتی اب بھی کسی حد اور انتہا کو نہیں مانتی۔
ضرب عضب اور ردُالفساد کے نتیجے میں اس خطے سے تخریبی عناصر ختم ہوئے اور نہ ہی آئی ڈی پیز بننے کے بعد واپسی پر وزیر، محسود اور داوڑ پشتونوں کی زندگی میں تبدیلی آئی۔ خدا نخواستہ، ایسا نہ ہوکہ خیبرپختونخوا میں قبائلی علاقوں کے انضمام کی حالیہ کاوشیں بھی رائیگاں جائیں۔ ایک طرف شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کے نہ تھمنے والے واقعات نے عوام کو خوف میں مبتلا کیا ہے تو دوسری طرف جنوبی وزیرستان میں امن کمیٹی کے نام پر طالبانی جتھے ڈنکے کی چوٹ پر من مانیاں کررہاہے۔
ملا نذیر کی ہلاکت کے بعد عین اللہ، بہاول عرف صلاح الدین ایوبی، ملنگ گنگی خیل اور تاج کی صورت میں ان کے چار پیشرووں نے جنوبی وزیرستان کے تیئیس اہم علاقوں کو اپنے درمیان تقسیم کرکے ہر ایک نے خودساختہ ریاست قائم کردی۔ جبکہ وانا بازار ان چار گروپوں نے باہمی رضامندی سے اپنے درمیان تقسیم کیاہے جہاں پرتیس دن کے لئے ہر گروپ کی حاکمیت ہوتی ہے۔
دو دن پہلے اتوار کو وانا میں انہی نام نہاد امن کمیٹی کے لوگوں نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر اور ان کے ساتھیوں پر اندھا دھند فائرنگ کرکے اس تحریک کے کئی کارکنوں کوشہید اور درجنوں کو زخمی کردیا۔ یہ لوگ اگرچہ بظاہر امن وآشتی کو بحال کرنے کے علمبردار بنے ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ امن کی بحالی ہی سے ان کو شدید چڑ ہے۔ اسی لیے توکبھی پی ٹی ایم کے کارکنوں کے سروں سے ان کی مخصوص ٹوپیوں کو زبردستی اتار کر جلا یا جاتا ہے اورکبھی ان کی پرامن اور غیرمسلح جدوجہد کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔
اتوار کی سہ پہر کورونماہونے والا خون آشام واقعہ بھی انہی عسکریت پسندوں کی کرتوتوں کا نتیجہ تھا کہ پہلے پھر علی وزیرکے گھر کا محاصرہ کرکے اسے واناکے علاقہ اور پی ٹی ایم میں سے ایک چھوڑنے کا کہا اور پھر بعد میں کھلے عام ان پر اور ان کی ساتھیوں کو اندھا دھند گولیاں برساکرحالات کو اس نہج تک لے آئے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ امن کے قیام کی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں یا پھر مسلح جتھے کی ہوتی ہے؟
حکومت کو اس بارے میں واضح پالیسی اپنانی چاہیے کہ اتوار کو وانا میں پر امن لوگوں پر چالیس منٹ تک گولیاں برسانے والے اگر دہشت گرد ہیں تو پھر ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے ابھی تک اس کی سرکوبی کیوں نہیں ہوئی ہے؟ یا پھر حقیقت میں یہ امن کمیٹی کے لوگ ہیں تو پھر ان کو اسلحہ رکھنے، چلانے اور لوگوں پر گولیاں برسانے اور ہراساں کرنے کی اجازت کس نے دی ہوئی ہے؟
سوشل میڈیا پرگردش کرنے والی تصاویر اور اس جھڑپ کی ویڈیو کلپس میں گولیوں گن گرج سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ وزیرستان اب بھی دہشتستان سے کم نہیں ہے۔ دوسری طرف شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہیں کہ تھمنے میں نہیں آرہے۔ میر علی کے علاقے میں مقیم صحافی دوست سمیع اللہ داوڑ کل بتا رہے تھے کہ جب سے یہاں کے آئی ڈی پیز کو تین چار سال بعد اپنے اپنے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت ملی ہے، تب سے ان کے آلام اور مسائل میں مزید اضافہ ہوا ہے،
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگ ِ جاں میں اتر جائے گا،
پہلے تو ان لوگوں کو وہاں پر بچھائے گئے زمینی مائنز کے خطرات جھیلنے پڑے، جس کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوئیں اور لوگ عمر بھر کے لئے اپاہج بھی ہوئے۔ سمیع اللہ داوڑ کا کہنا تھا کہ زمینی ماینز کے خطرات جھیلنے کے بعد یہاں کے لوگ لمبے عرصے تک چوروں اور لٹیروں کے رحم وکرم پر چھوڑا گیا۔
ان کے مطابق ڈکیتی اتنی آسان کام بن گئی ہے کہ میران شاہ بازار کے سخت سیکورٹی زون میں واقع ” پاکستان نامی مارکیٹ تک بھی ڈکیت پہنچ کر اپنا کام آسانی کے ساتھ نمٹادیتے۔ داوڑ کا کہناتھا کہ چوری کی وارداتوں میں جب قدرے کمی آئی تو پھر ٹارگٹ کلنگ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو بدقسمتی سے ہنوز جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت (جب آپ سے فون پربات کررہاہوں ) بھی میرعلی بازارمیں ٹارگٹ کلنگ کے خلاف سینکڑوں لوگ احتجاج کے لئے نکل آئے ہیں ‘‘۔
ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے شمالی وزیرستان کے لوگوں کے لئے اپریل کے بعد مئی کا مہینہ بڑا بھاری ثابت ہوا کیونکہ اس مہینے میں نقاب پوش کلرز نے مختلف مقامات پرتین سے چار معصوم لوگوں کو مار ڈالا جس کی واضح مثالیں سابق ایم این اے مولانا دیندار مرحوم اور مدرسہ نظامیہ کے صدر مدرس کے بیٹوں کی شہادتیں ہیں۔
مجھے بھی یاد ہے کہ حالیہ ہفتوں میں ٹارگٹ کلنگ کے پے درپے واقعات سے تنگ آکر آخرکار میرعلی لوگوں نے مسلسل پانچ روز تک احتجاجی دھرنا دیا جو بعد میں حکومتی یقین دہانیوں کے نتیجے میں ختم ہوا۔ اس بارے میں علاقے کے لوگوں اور جی او سی میجر جنرل اظہر اقبال کے درمیان ہونے والی ملاقات میں پانچ نکاتی معاہدے پر اتفاق ہوگیاتھاکہ ” ہرگاؤں میں پاک فوج اور پولیٹیکل انتظامیہ مشترکہ گشت کرے گی اور داخلی وخارجی راستوں پر مشترکہ اہلکار تعینات کیے جائینگے۔ رمضان میں افطاری، تراویح اور سحری کے وقت سیکورٹی کا خصوصی انتظام ہوگا اور گھروں کے معاضے کا مسئلہ جی او سی خود وزیراعظم اور وزیرسیفران سے اٹھائے گا۔ گاؤں کی سطح پر خاصہ داروں کو اسلحہ فراہم کرنے کے لئے کور ہیڈ کوارٹر کے ساتھ کیس اٹھایا جائے گا اور مستقبل میں تمام جرگوں میں یوتھ آف وزیرستان کی نمائندگی کو یقینی بنایاجائے گا‘‘۔
افسوس کے ساتھ کہناپڑرہاہے کہ اس معاہدے کی سیاہی خشک شاید ابھی تک نہیں ہوئی تھی کہ یکم جون کی رات کوایک خوبرونوجوان حمیداللہ جان وزیر کو گشت کے دوران شہید کردیاگیا۔ حمیداللہ وزیر وہاں پر پولیٹیکل انتظامیہ کے محرر کے طور پر اپنے فرائض انجام دینے والے بہادر نوجوان آفیسر تھے۔ چھ سال پہلے اسی مقام پر ان کے والد پولیٹیکل تحصیل دار امان اللہ خان وزیر کو بھی عین اسی مقام پر دہشت گردوں نے شہید کیاتھا۔ کہا جاتاہے کہ جس مقام پر حمیداللہ جان وزیر کی گاڑی کوشدت پسندوں نے راکٹوں کے ذریعے نشانہ بنایا، وہاں سے با الکل مختصر فاصلے واقع سیکورٹی چیک پوسٹ پرتعینات اہلکاروں کو پھربھی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
مئی ہی کے مہینے میں میرعلی کے علاقے میں اسکولوں کا بارودی مواد سے اڑانا اور والدین کو اپنے بچے اسکول نہ بھیجنے کی دھمکیاں دینا، جیسے واقعات شمالی وزیرستان کے لوگوں کو پھر سے تشویش میں مبتلا کردیاہے۔ سو، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان علاقوں میں پے در پے ایسے رونما ہونے والے ایسے ظالمانہ واقعات کا اعلیٰ سطح پر نوٹس لینا ناگزیر ہوچکا ہے، بصورت دیگر اس پر خاموشی اختیار کرنے سے نہ صرف خوف اور عدم تحفظ میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے بلکہ حکومتی اقدامات کے اوپر بھی مزید سوالیہ نشانات کھڑے ہوسکتے ہیں۔
♥