افغان وزارتِ دفاع کے حکام نے صوبہ کنّڑ میں امریکی فوج کی کارروائی میں پاکستانی طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔وزارتِ دفاع کے ترجمان محمد ردمنیش نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ملا فضل اللہ 13 جون کو کنّڑ میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں۔
افغانستان میں امریکی فوج کے ترجمان لیفٹینٹ کرنل مارٹن اوڈونل کی جانب سے جمعرات کی شب ایک بیان جاری گیا تھا جس میں کہا گیا کہ 13 اور 14 جون کی شب امریکی فوج نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک کارروائی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کارروائی کا ہدف دہشت گرد قرار دی گئی ایک تنظیم کا سینیئر رہنما تھا تاہم اس وقت امریکی فوج کی جانب سے کارروائی اور اس میں نشانہ بنائے جانے والے افراد کے بارے میں مزید معلومات فراہم نہیں کی گئی تھیں۔
تاہم جمعے کی صبح افغان حکام نے ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق کر دی۔ یاد رہے کہ ملا فضل اللہ کا ایک بیٹا بھی رواں برس مارچ میں ڈرون حملے میں ہی مارا گیا تھا۔
ادھر پاکستانی انٹیلیجنس کے ذرائع نے بی بی سی اردو کو بتایا ہے کہ 13 جون کو ملا فضل اللہ کنّڑ کے ضلع مروارہ میں واقع بچائی مرکز میں منعقدہ افطار پارٹی میں گئے تھے۔ اطلاعات ہیں کہ رات دس بج کر 45 منٹ پر جب وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے تو اس پر ڈرون حملہ ہوا۔ اس وقت ان کے ہمراہ ان کے تین ساتھی بھی موجود تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حملے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جن کی لاشیں جل گئیں اور انھیں 13 جون کی شب ہی بچائی میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
تاحال طالبان کی جانب سے ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی گئی ہے تاہم خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ طالبان شوری کی جانب سے نئے امیر کا نام چننے پر اتفاق رائے کے بعد ہی تحریک طالبان ملا فضل اللہ کے مرنے کی تصدیق کرے گی۔
خیال رہے کہ ماضی میں بھی کئی مرتبہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں تاہم بعدازاں ان کی تردید کر دی گئی تھی۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بنی ہو۔ سنہ 2007 میں قائم کی جانے والی تنظیم کے بانی رہنما اور پہلے امیر بیت اللہ محسود اور ان کے جانشین حکیم اللہ محسود جیسے کئی اہم ترین رہنماؤں کی ہلاکت امریکی ڈرون حملوں میں ہی ہوئی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ یہ ڈرون حملہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب افغانستان میں حکومت نے عید کے موقع پر عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا ہوا ہے اور طالبان نے بھی اسے قبول کیا ہے۔
امریکی بیان میں اس بارے میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوجیں اور نیٹو اتحاد صدر اشرف غنی کی جانب سے اعلان کردہ جنگ بندی کی حامی ہیں لیکن امریکہ کی دولت اسلامیہ، القاعدہ اور دیگر مقامی اور بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں کے خلاف کوششیں اس جنگ بندی میں شامل نہیں۔
فضل اللہ 1974 میں سوات میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق یوسفزئی قبیلے کی بابوکارخیل شاخ سے تھا اور وہ ایک پاؤں سے معمولی معذور بھی تھے۔انھیں 2013 میں حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ چنا گیا تھا۔
ملا فضل اللہ پاکستان ميں دہشت گردانہ کارروائيوں اور امريکی شہر نيو يارک کے ٹائمر اسکوائر پر سن 2010 ميں ايک کار بم حملے کی کوشش کے سلسلے ميں مطلوب ہيں۔ فضل اللہ تحريک طالبان پاکستان کے سربراہ ہيں اور القاعدہ کے ساتھ قريبی روابط کے حامل ہيں۔
وہ سوات میں طالبان کے دور میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت کے بھی ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں اور انھوں نے امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر بھی قاتلانہ حملہ کروایا تھا۔پاکستانی حکام 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر طالبان شدت پسندوں کے حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی ملا فضل اللہ کو ہی قرار دیتے ہیں۔ اس حملے میں 148 افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔
امریکی حکومت نے فضل اللہ کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا اور پاکستانی طالبان کے سربراہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر 50 لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان بھی تھا۔
پاکستان امریکہ سے متعدد بار مطالبہ کر چکا تھا کہ وہ افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستانی ریاست پچھلی دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اس نے کبھی بھی طالبان کی قیادت کے خلاف کوئی ایکشن نہیں کیا۔یہ بھی یاد رہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہونے والے پاک فوج کے تمام آپریشنز پرملکی اور غیر ملکی میڈیا نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
BBC/DW/News Desk
♦