عامرگمریانی
ہمارے شاعر سے کسی نازک بدن، شیریں سخن نے حریری پیرہن مانگا، تو پربت پار کا وہ نادار بندہ ایک بستی کی طرف نکل کر کسی راہ رو سے پوچھتا ہے کہ کیا وہاں کوئی ریشم کے کیڑے پالتا ہے؟
نظم آگے خاموش ہے کہ جب کہنے کو کچھ نہ ہو تو خاموشی ہی بولی بن جاتی ہے۔ امید ہے کہ جواں مرگ مقبول عامر (1954۔ 1990) کو ریشم کے کیڑے پالنے والوں کا پتہ چل گیا ہوگا اور اس کے نازک بدن محبوب کی شیریں سخنی اس کے ساتھ برقرار رہی ہوگی۔
ہمیں اپنے نوجوان ریشم کے کیڑوں کے مانند لگتے ہیں، ہم بھی ابھی پیرانہ سالی کے حدود سے کافی دور ہیں لیکن جوانی کی دہلیز پار کر آئے ہیں۔ ہماری جوانی کی ایسی بھی کوئی ہوا نہیں تھی؛ اگلے وقتوں کے حسینوں سے گواہی لینے کے بجائے خاموشی ہی میں عافیت ہے لیکن خواب ہم نے بھی دیکھے تھے جو الحمدللّٰہ آج بھی زندہ ہیں۔
دھرتی ماں کو ریشم و اطلس و کمخواب بنانے کے خواب۔ عدل، انصاف، برابری، امن، سکون اور ترقی کے خواب، یگانگت، رواداری، باہمی احترام کے خواب، علم و ہنر سے منور اور مزین ایک معاشرے کے خواب۔ لہلہاتے ہوئے سپنوں نے ہماری آنکھوں میں بھی رتجگے کاشت کئے تھے۔
فیض احمد فیض سے لیکر اجمل خٹک تک کتنے ہی انقلابیوں کے سینکڑوں اشعار ہمارے حافظے میں خود بخود محفوظ ہو گئے تھے۔ کالج گئے تو فوجیوں کے ہاتھوں چڑھ گئے۔ سب کچھ تھا ماسوائے سیاسی سرگرمیوں کے۔ نتیجتاً مشاعروں، بیت بازیوں اور تقاریر سے کام چلانے لگے کہ توانائی سے بھرپور جذبوں کو کسی میدان میں تو منکشف ہونا تھا۔ عمران خان کے دیوانے تھے اور ان کی سیاست میں آمد کی دعائیں دن رات مانگا کرتے تھے۔ فرسٹ ائر غالباً دعاوں ہی میں گزرا۔ سیکنڈ ائر میں تھے کہ خان صاحب نے سیاست میں انٹری دی۔
ہمارے خواب متشکل ہونے لگے۔ خیالوں خیالوں میں ریشم کے کیڑوں کی طرح حریر کے تار بننے لگے۔ سیکنڈ ائر میں تنگ آمد بجنگ آمد کی کیفیت طاری ہونے لگی تھی کہ خدا خدا کرکے امتحان کے دن آگئے۔ امتحان کیلئے تیاری واجبی سی تھی کہ ہمیں سائنس کے مضامین تھوڑے بہت آتے تو تھے لیکن ان میں دل کو آسودگی میسر نہیں تھی۔ کیا پتہ تھا کہ زندگی اس امتحان سے کٹھن بہت ہی کٹھن امتحان بلکہ آزمائش میں ڈالنے والی تھی۔
امتحانات ابھی جاری تھے کہ والد صاحب ایک حادثے میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ہم پر تو جیسے غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ایک وہی تو تھے جو ہماری دل کی بستی کا حال جانتے تھے۔ سات بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہم تھے۔ لیکن طبیعت کی حساسیت نے سب سے بڑا بنا دیا۔ ایک سال تو کچھ کرنے کا ہوش ہی نہیں رہا۔ جس کو شعر لکھ کر سنایا کرتے تھے وہ ہی نہیں رہا۔ اب اُس کے فراق میں شعر لکھتے تو کوئی تھا نہیں جسے سنا سکتے۔ ایک سال تک تو ہوش ہی نہیں تھا۔ ہاں عمران خان سے عشق اسی طرح برقرار رہا۔ بس خان صاحب بولا کریں اور ہم سنتے رہیں۔
ایک سال ضائع ہوا تو گور نمنٹ کالج میں تھرڈ ائر میں داخلہ لیا۔ فوجیوں کے زیرانتظام کالج سے جان چوٹی تو یکایک آزاد فضاء میں سانس لینےکا خوشگوار احساس ہوا۔ اتنے اتاولے تھے کہ خان صاحب نے جوں ہی تحریک انصاف کا اعلان کیا ہم نے آو دیکھا نہ تاؤ، جھٹ سے چند دوستوں کی مدد سے گاوں میں تنظیم بنا ڈالی۔ میرا گمان ہے کہ یہ تحریک انصاف کی عوامی سطح پر ملک بھر میں پہلی تنظیم تھی۔ تنظیم بنانے کے بعد اور کالج میں داخلے سے پہلے تحریک انصاف کی اولین ورکرز کنونشن جو نشتر ہال پشاور میں منعقد ہوئی تھی، میں شرکت کی۔ جمائما خان کو بھی اس موقع پر دیکھا، ہمیں تو خان صاحب سے متاثر ہونے اور ان کے گن گانے کے بہانے چاہئے تھے۔ بات واقعی متاثر کن تھی۔
کنونشن شروع تھا کہ بیچ میں جمائما،عمران خان صاحب کی ایک ہمشیرہ کے ساتھ ہال میں داخل ہوئی۔ لوگوں نے پرجوش استقبال کیا۔ جمائما بیچاری حیران تھی کہ کہاں بیٹھا جائے، کچھ لمحے کھڑی رہی پھر سٹیج کی جانب بڑھنا چاہا ہی تھا کہ خان صاحب نے اشارے سے نیچے ہی بیٹھنے کو کہا۔ وہ بھی بلا توقف خواتین کے ساتھ پہلی قطار میں بیٹھ گئی۔ آج ہم اپنی دیسی شہزادی کی شان و شوکت دیکھتے ہیں تو بے اختیار اس پردیسی شہزادی کا نشتر ہال میں ہماری ماؤں، بہنوں کے درمیان بیٹھنا اور بعد ازاں سرما کے شدید موسم میں باجوڑ سے بے گھر ہونے والے بچوں کی حالتِ زار دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دینا یاد آجاتا ہے۔
ہم واقعی ایک نا شکرگزار قوم ہیں۔ کیسے کیسے لوگ قدرت نے ہمیں عطا کئے لیکن ہم ان پر چوری کے مقدمے قائم کرنے سے بھی نہیں شرمائے۔ کنونشن کا بخار ابھی بَرقرار تھا کہ کالج میں داخل ہوئے۔ سیاسی سرگرمیوں کی آزادی تھی۔ سوچا کچھ کر کہ دکھانے کا موقع اچھا ہے۔ دوسرے روز عوامی نیشنل پارٹی کی طلباء تنظیم پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کہ جس کا غلبہ تھا کالج میں، کی میٹنگ تھی۔ ہم بھی شرکت کرنے پہنچے، سوچا تھا کہ ساتھی طالب علم باچاخان کی فکر و سیاست پر بات کریں گے۔ فلسفہ عدم تشدد پر بحث ہوگی، نصاب میں عدم تشدد کو شامل کرنے کی تجاویز دی جائیں گی۔
لیکن حیف صد حیف کہ وہاں تو معاملہ کچھ اور ہی تھا۔ ایک کے بعد ایک صاحب سٹیج پر آتا، اجمل خٹک اور غنی خان کے کچھ غلط رٹے ہوئے اشعار سناتا اور مُکہ لہرا کر سبق سکھانے کے عزم کا اظہار کرتا۔ پتہ چلا کہ کالج کے ایک طالب علم نے بس کنڈکٹر کے ساتھ جھگڑا کیا تھا۔ جھپٹ کر پلٹ آیا بلکہ مار کھا کر کالج بھاگ آیا تھا۔ اب اقبال کی روح کی تسکین اور شعر کی تکمیل کے لئے جھپٹنا تو بہر حال ضروری تھا۔ تنظیم نے اس کو اپنی توہین جانا اور تقریروں سے لہو گرمانے کے بعد فیصلہ ہوا کہ سب نے مل کر جھپٹنا ہے۔ چنانچہ چل دئے محاذ کی جانب اور جنگی حکمتِ عملی کے مطابق روڈ بلاک کر کے چند گاڑیوں کے شیشے توڑ دئے چند لوگوں کے سر پھوڑ دئے اور آس پاس کے کھیتوں میں یوں بھاگنے لگے جیسے سو میٹر دوڑ میں حصہ لے رہے ہوں۔
اس دن ہم پر کھلا کہ ہم نوجوانوں کو حقیقی لیڈرشپ کی شدید ضرورت ہے۔ کالج تو ہم کچھ دنوں بعد چھوڑ آئے کہ ایک تو والد صاحب کی وفات کے بعد گھر کے معاشی حالات شدید بحران کا شکار تھے اور دوسرا اس ماحول سے کوفت ہونے لگی۔ ایک بات کے ہم دل و جان سے قائل ہو گئے کہ اگر کوئی اس قوم کی ڈوبتی ناو کو بچا سکتا ہے تو وہ ہے عمران خان۔ ان نوجوانوں کی توانائیوں کو اگر کوئی بسوں کے شیشے توڑنے سے نکال کر کسی بامقصد سمت پر ڈال سکتا ہے تو وہ ہے عمران خان۔ اسی جذبے کے تحت ہم تحریکِ انصاف کے گمنام سپاہی بن گئے۔
ہم ریشم کا کیڑا بننے میں خوش تھے کہ تندہی سے سے اپنا کام کرو، ریشم بُنو بغیر کسی صلے اور ستائش کے۔ صلہ اور ستائش بری چیز نہیں لیکن اس میں منہ ماری کرنی پڑتی ہے، کئی ایک لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسا کرنا بہ وجوہ ہمارے لئے کبھی بھی ممکن نہیں رہا۔ اسی جذبے کے تحت ہم دیوانہ وار چیف جسٹس افتخار چودھری کی گاڑی کے پیچھے شرم اور جھجھک بالائے طاق رکھ کر بھاگتے پھرے کہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ دھرتی ہوگی ماں کی جیسی۔
ہم نوجوان چیف کے جانثار بنے کہ ہمارے خان صاحب اُن کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ ہم خان صاحب کے گمنام سپاہی بننے میں خوش تھے۔ گاؤں اور حلقے میں اپنے سٹوڈنٹس اور نوجوانوں کو بتاتے تھے کہ خان صاحب قدرت کی کمان سے نکلے ہوا تیر ہے وہ ہدف پر پہنچ کر رہیں گے اور ہمیں پرویزخٹک، شیخ رشید، نذر گوندل اور فواد چودھری وغیرہ وغیرہ سے نجات دلائیں گے۔ ہم اپنے عہد پر قائم رہے حتی کہ 2013آیا اور سارے موسمی کبوتر اقتدار کا دانہ دیکھ کر تحریک انصاف کی چھتری پر آ بیٹھے۔ ہمیں اس دن احساس ہوا کہ ‘خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا’۔
پاکستان کی کل آبادی کا 64 فیصد یعنی لگ بھگ ساڑھے بارہ کروڑ لوگ تیس سال سے کم عمر ہیں۔ جن میں 29 فیصد یعنی کوئی ساڑھے پانچ کروڑ افراد 15 سے 29سال کے درمیان ہیں۔ اتنی زیادہ جوان آبادی کسی نعمت سے کم نہیں۔ اگر انہیں درست سمت اور واضح مقاصد اور پرامید مستقبل ملے تو چند سالوں میں ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے لیکن ہم چونکہ رحمت کو زحمت بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اس لئے ہمارے نوجوان ہمارے لئے اثاثے کے بجائے بوجھ بنتے جارہے ہیں۔ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے کے مصداق اس ملک کی بربادی کا سندیسہ اس کے نوجوانوں کے ہاتھوں لکھا جارہا ہے۔ خان صاحب اور اس کی جماعت بدقسمتی سے نوجوانوں کی تربیت کی بجائے ان سے صرف اور صرف اقتدار کے حصول کا مقصد حاصل کر رہے ہیں۔ اس مٹی کے جوہر کو خاک میں ملایا جارہا ہے۔
شاعر نے کہا تھا کہ کہ چاندی کے تار بُننا آسان نہیں ہے، کُنجِ جگر سے نور کے زرے کھینچ لانا سہل نہیں ہے۔ “ریشم بننا کھیل نہیں ہے”
کوئی جائے اور جاکر ہمارے شاعر سے کہہ دے کہ اس بستی میں ریشم کے کیڑے اب ریشم نہیں بلکہ نت نئی گالیاں بُنتے ہیں۔ ریشم کے کیڑے اب دل کے لہو سے سانس ملا کر سُچا نور نہیں بناتے بلکہ لفظوں کے خنجر سے دلوں کو چھیڑ پھاڑ کر رکھنے کے مشن پر مامور ہیں
اب کہ نہ کوئی قصر نہ ایوان بچے گا
اب کہ جو چلی ہے وہ ہوا تیز بہت ہے