علی احمد جان
جمہوریت ہمارے ہاں اس بے اولاد اور لاوارث بیوہ عورت جیسی ہے جو شوہر کے انتقال کے بعد سوتیلے بچوں کے گھر میں رہتی ہے جہاں گھر میں ہونے والی ہر خرابی کا الزام اسی کے سرہے ۔ گھر کی کوئی چیز گم ہو جائے یا کسی کی الماری کا دروازہ کھلا ملے، فوراً انگلی اسی پر اٹھائی جاتی ہے۔ نہ صرف گھر کے اندر بلکہ گھر سے باہر بھی کوئی کام نہ ہو پائے یا بگڑ جائے تو ذمہ دار صبح گھر سے جاتے ہوئے اسی کا منہ دیکھنا ٹھہر تا ہے۔
بیٹی کا رشتہ نہ ہو پائےیا شادی شدہ بیٹی کےسسرال میں ان بن ہو تو تو فوراً ذمہ دار بوڑھی عورت کے وجود کی نحوست کو قرار دے کر گھر سے نکالنے کی ترکیبیں سوچی جاتی ہیں۔ کسی نہ کسی بہانے اس کو گھر سے نکال بھی دیا جاتا ہے یا نکل جانے پر مجبور کیا جاتا ہے تو باپ کے اس کے نام لگی پنشن ، جائیداد میں اس کا حصہ یا پھر لوگوں کی زبانوں کو خاموش کروانے کچھ عرصے کے لئےپھر واپس بلا لیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں ہر برائی اور ہر خرابی کی ذمہ دار جمہوریت ہی ٹھہری مثلاً اربوں ڈالر کے قرضے ، اقرباء پروری، کمیشن خوری، رشوت ستانی ، چور بازاری ، مہنگائی، وی آئی پی کلچر سمیت جتنی بھی برائیاں نظر آتی ہیں یا بتائی جاتی ہیں وہ جمہوریت کی ہی مرہون منت سمجھی جاتی ہیں ۔ ہم اس جمہوریت سے اتنے بے زار ہیں کہ آج بھی شعوری اور لاشعوری طور پر کسی ایسے نابغہ کے انتظار میں رہتے ہیں جو آکر جمہوریت کا دم بھرنے والے ڈاکوؤں ، چوروں اور لٹیروں کو ایک جگہ جمع کرکے بغیر کسی سوال و جواب کےالٹا لٹکا دے اور ہمیں پختہ یقین ہے کہ اس کے بعد یہاں دودھ اور شہد کی ندیاں بہنے لگ جائیں گی اور وہ بے برکتی ختم ہوجائیگی جو جمہوریت کی وجہ سے گزشتہ ستر سالوں سے ڈھیرے ڈالے ہوئے ہے۔
اشرافیہ کا ایک طبقہ تو یہ سمجھتا ہے کہ دنیا والوں کی باتوں ، بین الاقوامی امداد ، خارجہ تعلقات اور ہمسائیوں کے طعنوں کی وجہ سے جمہوریت نام کی اس سوتیلی ماں کو گھر میں برداشت کئے ہوئے ہیں ورنہ کب کا اس کاہمیشہ ہمیشہ کے لئے دیس نکالا کیا ہوتا۔
گو کہ جمہوریت کا دیا ہوا ملک کا آئین پارلیمان کو ہی سب سے مقدس اور طاقتور ترین ادارہ قرار دیتا ہے جو ایوان زیرین، ایوان بالا ، وزیر اعظم اور صدر پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس ادارے کو دیگر ادارں پر فوقیت حاصل ہے مگر کسی بھی فرد یا رکن کا انفرادی کوئی اختیار نہیں ہوتا بلکہ تمام اختیارات آئین کے تحت صدر مملکت مختلف اداروں کو تفویض کر دیتا ہے۔
اس آئین کی رو سے صدر مملکت آج بھی ملک کا بادشاہ و مالک ہے ، تمام ادارے اور لوگ اس کی رعایا ہیں ۔ جس طر ح سعودی عرب میں آج بھی یا پھر ماضی میں ہمارے ہاں کے مغل بادشاہوں کے سامنے رعایا سرنگوں تھی اسی طرح ہمارے ہاں بھی صدر مملکت ہی بادشاہ و مختار ہیں ۔
مگر فرق صرف یہ ہے کہ آئینی بادشاہ کے پاس اپنا کوئی اختیار نہیں ہوتا وہ پارلیمان کے مشورے پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ جمہوریت کا یہ ماڈل ہم نے برطانیہ سے لیا ہوا ہے جہاں بادشاہ صرف ایک علامتی سربراہ مملکت ہوتا ہے ۔ پارلیمان ملک کے عاقل بالغ باشندوں کے سوچ سمجھ کر منتخب کئے ہوئے نمائندوں پر مشتمل ادارہ ہے جو اپنےحلقہ نیابت کے زریعے پوری آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر پارلیمان کے اختیارات، اقدامات اور فیصلوں کو ملک کے تمام لوگوں کی اکثریت یعنی جمہور کی تائید حاصل ہوتی ہے اس لئے اس نظام کو جمہوریت کہا جاتا ہے۔
مگر کیا کیجئے برطانیہ سے آئی یہ مغربی جمہوریت ہماری تو سوتیلی ہے ۔ اپنی مختصر سی تاریخ میں جمہوریت کا مقابلہ کبھی خلافت ، کبھی ملوکیت اور کبھی بادشاہت سے کرواکر ہم خلافت، ملوکیت اور بادشاہت تو قائم نہ کرسکے البتہ اس کشمکش اور تذبذب میں طالع آزماؤں نے گھر میں ڈھیرے ڈالے رکھا۔
یہ جمہوریت کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ اس کو گالی دینا، برا بھلا کہنا، الزام لگانا ، دشنام دینا کوئی برائی یا جرم نہیں حتیٰ کہ دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت برطانیہ میں پناہ گزین ہمارے کچھ بھائی اس کو دیار غیر کے لئے بھی غلط قرار دیتے ہیں۔ پورے ملک کے عوام کی حمایت اور تائید سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم یا صدر کے کارٹون بناکر، لطیفے سنا کر اور خاکے بناکر اسی صدر اور وزیر اعظم سے انعام بھی لیتے ہیں لیکن اگر غلطی سے کسی نے عوامی خدمت پر معمور گریڈ سات کے پٹواری، گریڈ گیارہ کے تھایندار یا سولہ گریڈ کے تحصیلدار کو حضور اور مائی باپ جیسے الفاظ سے کم میں یاد بھی کیا تو پھر اپنی جان کی سلامتی کا ذمہ دار وہ خود۔
پارلیمان کے بنائے آئین کے تحت قائم ہونے والی عدالت کے ایک جج کے کسی فیصلے پر اگر چہرے کےبدلے تاثرات محسوس کئے گئے تو اہانت عدالت کے جرم میں جیل ہوسکتی ہے مگر بھرے مجموعے میں ۲۲ کروڑ کی منتخب پارلیمان کو گالیاں دے کر، لعنت بھیج کر اور لاکھ بار لعنت بھیج کر بھی اسی پارلیمان کے ممبر بن کر حکومت کرنے میں نہ کوئی رکاؤٹ ہے نہ جھجک۔
حکومت پر الزام لگانا یا دشنام دینا کوئی انوکھی بات نہیں مگر پارلیمنٹ اور حکومت میں فرق روا نہ رکھنے کا نیا وطیرہ پچھلے کئی سالوں سے بتدریج پنپ رہا ہے ۔ اب تو نئی نسل کے نوجوان کسی بھی بات پر پارلیمنٹ سے بھی آگے بڑھ کر جمہوریت کو ہی لعن طعن کرتےہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایسی حکومت جو ان کے اپنے لوگوں کی نہ ہو نہ صرف وہ غلط ہے بلکہ وہ پارلیمنٹ جس سے اس حکومت کو اعتماد حاصل ہے وہ بھی غلط ہے اور جس جمہوری نظام کے تحت حکومت چل رہی ہے وہ بھی غلط ہے۔ اس کج روی نے کچھ اور نہیں صرف جمہوری اداروں اور سیاسی عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
سنہ 1988 میں گیارہ سالہ مارشل لاء کے بعد جب دوسری بار سوتیلی بیوہ ماں جمہوریت کی واپسی ہوئی تو جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے خلاف دور آمریت سے جاری زبان درازی نہ صرف بند نہ ہوپائی بلکہ اس میں شدت آگئی اورمارشل لاء کے دوران ملک میں جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کے لئے جد وجہد کرنے والوں کی ذات اور ذاتی زندگیوں تک کو نشانہ بنایا گیا۔
ایک رکن پارلیمان تو اپنی زبان درازی میں اتنے مقبول تھے کہ یہی خوش نوائی آج بھی اس کی پہچان بنی ہوئی ہے مگر وہ اب مخالف کیمپ میں بیٹھ کراپنی خوش کلامی سے ان کو محظوظ کر رہے ہیں جنھوں نے ان کو اس کی ہمت اور صلاحیت دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا۔
جس پارلیمان میں جھوٹ جیسے الفاظ بھی غیر پارلیمانی قرار دے کر کاروائی کے ریکارڈ سے حذف کئے جاتے ہیں وہاں ایسے ایسے الفاظ استعمال ہوئے کہ گیلر ی میں بیٹھ کر اجلاس کی کاروائی دیکھنے والوں نے بھی اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونسی۔ جب1999ء میں سوتیلی بیوہ ماں جمہوریت گھر سے تیسری بارپھررخصت کر دی گئی تو پارلیمنٹ سے بازار حسن تک جیسی کتا بوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ پھر ایک طویل عرصے تک جمہوریت، سیاست، آئین اور پارلیمان ہدف دشنام و الزام رہے۔
سوتیلی بیوہ ماں جمہوریت جب تیسری بار واپس آگئی تو اس دوران یہاں دشنام و الزام کی سیاست کے علم البیان میں بڑی ترقی ہوئی ہے۔ اب سیاسی بیانات پرسوال و جواب پر مبنی مکالمہ نہیں ہوتا بلکہ مخالفین فصاحت و بلاغت سے ایک دوسرے کےذاتی ، خاندانی اور سماجی اوصاف بیان کرنے میں مقابلہ کرتے ہیں۔
پہلے کسی سیاسی جماعت میں ایک آدھ کسی ٹھٹھول کے ذومعنی الفاظ میں بزلہ سنجی ہوتی تھی مگر اب تو جگتیوں اور پھکڑوں کی بٹالین بھرتی کی ہوئی ہیں جن کی زبان کی تلخ نوائی نشتر کی طرح سماعتوں سے ٹکرا کر ماحول میں ایسا ارتعاش پیدا کرتی ہے کہ محفل زعفران زار بن جانے کے بجائے جوالہ مکھی بن جاتی ہے۔ خدشہ ہے انتخابات کے نزدیک آتے آتے سیاسی مکالمے میں دلیل کے بجائے ایک دوسرے کی ذاتی تضحیک اور تحقیر کی بدعت آپس کے غیر سیاسی مراسم اور قربت داریاں بھی عداوت اور دشمنیوں میں بدل کر معاشرتی انتشار میں مزید اضافے کا موجب ہوگی۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ الزام و دشنام نے اب بیان بازی سے بڑھ کر ایک صنعت کی شکل بھی اختیا رکی ہوئی ہے۔ اب صرف سیاسی بیانات، تقاریر اور خطبوں میں ہی ذو معنی جملوں سے تضحیک اور تحقیر کے رقیق حملے نہیں ہوتے بلکہ تصاویر اور ویڈیوز میں بھی نفرتیں بھر کر سوشل میڈیا میں وبا کی طرح پھیلا کر پورے ماحول کو زہر الود کردیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مشاہدات اور تجزیات کی ہیرا پھیری ایک باقاعدہ پیشہ بن چکا ہے ۔ ہتھیلی میں سمائے سمارٹ فون کی سکرین پر سچائی کو تلاش کرنا اب بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے سے زیادہ مشکل امر ہے۔
سیاسی جماعتوں کے باقاعدہ پیشہ ور دستے دن رات بلا تعطل دروغ گوئی اور کذب و ریا کا کام سرانجام دیتے ہیں ۔ اعداد و شمار کے ہیر پھیر اور حقائق کے توڑ مروڑ کے اس پیشے کو سماجی رابطے میں مہارت کا نام دیا جاتا ہے جو جدید تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل لوگ زیادہ احسن طور پر سرانجام دےرہے ہوتے ہیں۔
جمہوریت پہلے صرف نجی محافل اور چند اخبارات کے صفحات کی حد تک ہر برائی کی ذمہ دار ٹھہرائی جاتی تھی اب ہر جلسہ گاہ، چوک، گلی محلے ، موبائل فون ، کمپیوٹر اور ٹیلی ویژن کی سکرین پر اہل سیاست کے ایک دوسرے پر لگائے الزامات اور جوابی الزامات دیکھ کرخود شرم سے سر نہ اٹھا پاتی ہے۔ اگرا ہل سیاست نے کسی ضابطہ اخلاق کی پابندی نہیں کی تو نہ صرف ۲۵ جولائی کے انتخابات تک پورا ماحول زہر الود ہوجائے گا بلکہ اس کے بعد آنے والی حکومت بھی ناشائستگی، جھوٹ، الزامات، تضحیک اور تحقیر کے زہر کو برداشت نہ کر پائے گی اور پہلے سے کمزور اور ناتواں جمہوریت مزید کمزور ہوجائیگی ۔
♦