چند دن پہلے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خراب صورتحال پر رپورٹ جاری کی ہے۔جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی کشمیر اور پاکستانی کشمیر اور گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی کشمیر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے طاقت کے بہیمانہ استعمال ، جنسی تشدد اور جبری طور پر لاپتہ افراد جیسی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستانی کشمیر اور گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں زیادہ تر سٹرکچرل نوعیت کی ہیں۔ جس میں انسداد دہشتگردی کا قانون ،آئینی پابندیاں اور عوام کی آزادی اظہار رائے پر پابندی ہے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے نے دونوں اطراف کے کشمیر کا دورہ کرنے کی بجائے یہ رپورٹ بین الاقوامی ہیومن رائٹس کی رپورٹوں کو سامنے رکھ کر ترتیب دی ہے۔
رپورٹ میں دونوں اطراف کے کشمیر کی صورتحال کا موازانہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ بھارتی کشمیر میں جاری مظالم کی شدت پاکستانی کشمیر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ رپورٹ جاری ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی بھارتی حکومت نے اس رپورٹ کو ایسے ہی مسترد کیا ہے جیسے پاکستانی حکومت بلوچستان میں ہونے والے ریاستی مظالم کی عالمی رپورٹیں جھٹلا دیتی ہے۔
بھارتی ترجمان نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ جھوٹی اور غلط حقائق پر مشتمل ہے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ بھارتی کشمیر اور پاکستانی کشمیر کے حالات کا موازانہ کرنا درست نہیں ہے۔ بھارتی کشمیر میں ایک منتخب جمہوری حکومت ہے ۔
تجزیہ نگاروں نے اقوام متحدہ جیسے ادارے کی اس رپورٹ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ درست ہے کہ بھارتی کشمیر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے نہتے عوام پر گولیاں برسائی جاتی ہیں لیکن رپورٹ میں اس حقیقت کا کوئی تذکرہ نہیں جس میں پاکستانی ریاست کی حمایت یافتہ دہشت گرد مذہبی تنظیمیں، لشکر طیبہ، جماعت الدعوۃ، حزب الاسلامی اور جیش محمد ملوث ہیں۔
اگر یہ مذہبی تنظیمیں دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں تو پھر ان پر پاکستانی ریاست نے پابندی کیوں عائد کر رکھی ہے؟ اور پھر پابندی عائد ہونے کے باوجود یہ تنظیمیں آزادی سے اپنی سرگرمیاں جاری کیوں رکھے ہوئے ہیں۔
News Desk