بھارت کےسابق نائب صدر حامد انصاری نے معروف دانشور اور بین الاقوامی رواداری اور ہم آہنگی کے مبلغ اصغر علی انجینئر کی خود نوشت’ زندہ جاوید عقیدہ ‘کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اس عہد جدید کا سپنوزا (24نومبر 1632۔21۔فروری 1677) قرار دیا تھا ۔
ان کا کہنا تھا کہ صدیوں پر محیط زمانی بعد کے باوجود دونوں مفکرین کے افکار و نظریات میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔فکری طور پر دونوں انقلابی اور آزادخیال ہیں۔ دونوں کے ہاں گہر ے اخلاقی شعور ،جمہوری اقدار اور اصولوں سے اٹوٹ وابستگی پر بہت زور ہے ۔ سترھویں صدی کے ڈچ فلسفی سپنیوزا کی طرح انجینئر نے بھی مذہب کی روایتی ، جامد اور غیر متبدل تعبیر و تفسیر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایک ارتقا پذیر ، روشن خیال اور انسان دوست مذہبی عقیدے کی وکالت کی ہے ۔
جب انجینئر سے ان کے کام اور ان کی چھپنے والی خود نوشت کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے کہا تھا کہ ’’لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں نے یہ خودنو نشت کیوں لکھی۔ میرا ایک ہی جواب ہے کہ میں اپنے تجربات لوگوں کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا تھا اور میں ان لوگوں تک اپنی آواز اور بات پہنچانے کا خواہاں تھا جنھیں سماجی اور سیاسی اثر و رسوخ حاصل ہے اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ موجود صورت حال کسی طور بھی اطمینان بخش نہیں ہے ۔
انجینئر کہتے ہیں کہ ’’ اپنی خود نوشت لکھنا مشکل کام ہے کیونکہ ہمارے سماج میں سچ لکھنا بہت بڑا چیلنج ہے اور بہت کم لوگ ایسے ہیں جو یہ چیلنج قبول کرتے ہیں ۔ اپنی زندگی کے واقعات لکھتے ہوئے میں نے پور ی کوشش کی ہے کہ سچائی اور ایمانداری کا دامن ہا تھ سے نہ چھوٹے‘۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی میں میرے تین مقاصد ۔۔۔ امن اورفرقہ ورانہ ہم آہنگی ، مثبت سماجی تبدیلی اور صنفی انصاف رہے ہیں۔ میں تمام زندگی انہی مقاصد کے حصول کے لئے مصروف جدوجہد رہا ہوں اور میری یہ جد وجہد ہنوز جاری ہے ۔
اصغر علی انجئینر لکھتے ہیں کہ بھارت کو آزادی حاصل کئے 64 سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک ہم یہ مقاصد حاصل نہیں کر پائے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس حوالے سے ہماری منزل ہنوز دور اور ہمارا سفر ابھی ابتدائی مراحل میں ہے ۔مذہب کے نام پر عوام کا استحصال ہمارے معاشرے میں آج بھی جاری و ساری ہے۔مذہب کے بارے میں تو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ آپ کو رحم دل اور انسان دوست بناتا ہے لیکن ہمارے ہاں لوگ مذہب کے نام پر انسانوں کا قتل عام کرتے ہیں ۔
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انسان مذہب کے تحفظ کی خاطر انسانوں کو قتل نہیں کرتے بلکہ یہ تو معاشی اور سیاسی مفادات ہیں جن کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے انسانوں کا خون بہایا جاتا ہے ۔ اپنے حقیقی سیاسی و معاشی مفادات اور مقاصد کو چھپانے اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مذاہب کی باہمی آویزش ان کے پیر و کاروں کو تشد دپر اکساتی ہے لیکن میرے نزدیک یہ درست نہیں ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاشی ،سیاسی اور گروہی مفادات ہیں جن کے تحفظ کے لئے مذہب کی آڑ میں تشدد کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ اپنی خود نوشت میں ، میں نے یہ سب کچھ بیان کیا ہے ۔
سنہ1939 میں پیدا ہونے والےا صغر علی انجینئر سول انجینئر نگ میں گریجویشن کرنے کے بعد دو ہائیوں تک بمبئی میونسپل کارپوریشن میں بطور سینی ٹیشن انجینئر خدمات سرانجام دیتے رہے ۔1970کی دہائی میں انھوں نے ملازمت سے قبل از وقت ریٹائر منٹ لے کر بوہرہ کمیونٹی پر مسلط مذہبی پیشوائیت کے خلاف اور اصلاحات کے لیے تحریک کا آغازکیا ۔ انھوں نے پچاس کے قریب کتابیں لکھیں اور مرتب کی ہیں جب کہ مختلف النوع مو ضوعات پر ان کے لا تعداد مضامین اخبارات اور رسائل میں چھپ چکے ہیں۔
انھیں1997 میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی ایوارڈ اور 2004 میں
مل چکا ہے ۔ اس ایوارڈ کو نوبل پرائز کا متباد ل سمجھا جاتا ہے ۔ Right Livelihood Award
انجینئربیک وقت مذہبی اور سماجی مصلح ، ماہر لسانیات ، دانشور اورمصنف ہیں۔ وہ اگرایک طرف مارکس کے طالب علم ہیں تو دوسری طرف ڈاکٹر فرمان فتح پوری جنھوں نے مرزا غالب اور علامہ اقبال کے فکر و فن پر نہایت اعلی پائے کی کتابیں لکھی ، کے بھی مداح ہیں۔مارکس کی نظریاتی پیروی میں مذہب کا معروضی مطالعہ اور تجزیہ کرنے پر یقین رکھنے کے باوجود اسلام کی بنیادی تعلیمات پر وہ پختہ ایمان رکھتے ہیں ۔
اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں ’’ اگرچہ میں ( مذہب پر )یقین رکھتا ہوں لیکن سماجی اور سیاسی مظاہر کوسمجھنے کی جو حکمت عملی مارکس ازم تجویز کرتا ہے میں اس سے بھی متفق ہوں ۔ میری رائے میں مارکسسٹ ہونے کے لئے لا مذہب ہونا ضرور ی نہیں ہے‘‘۔
ا صغر علی انجینئرساٹھ اور ستر کی دہائی میں جنوبی امریکہ میں مسیحی پادریوں کی زیر قیادت چلنے والی سماجی انصاف کی تحریک جسے ’ لبریشن تھیالوجی ‘ کانام دیا گیا تھا، سے متاثر ہیں ۔ وہ علم کے مختلف النوع دھاروں کی اعلی ترین اقدار سے استفادہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں ۔ مذہبی عقیدے اور خرد افروزی کا ملاپ اور اشتراک ان کی فکر کا بنیاد ی پتھر ہے ۔
کسی دانشور کا ہمہ جہتی فکری اثرات کو قبول کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا اس بات کی گواہی ہے کہ وہ نہ صرف سچ کی تلاش میں سنجیدہ ہے بلکہ وہ سچ پر کسی ایک مذہب ، فرقہ یا گروہ کی اجارہ داری تسلیم کرنے سے انکاری ہے، اصغر علی انجینئر ایسے ہی دانشور ہیں جو سچائی کو انسانیت کا مشترکہ اثاثہ سمجھتے ہیں ۔ انھوں نے کبھی مکمل سچ پالینے کا دعوی ٰنہیں کیا اور نہ ہی وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ بیان کر رہے ہیں وہ حتمی ہے ۔ و ہ دلیل کی زبان میں بات کرتے اور دلیل اور منطق سے دیئے گئے جواب کی قدر کرتے ہیں۔
اصغر علی انجینئرکے نزدیک سچا مذہبی انسان بننے کے لئے چار خصو صیات ہو نا ضروری ہیں ۔’’ سچائی کی تلاش کا جذبہ ،انکساری ،رحم دلی اور مقتدرہ قوتوں کے روبرو ڈ ٹ جانے کا حوصلہ ۔ بوہرہ فرقہ پر مسلط مذہبی پیشوائیت کے خلاف جاری ان کی انتھک جد وجہد کے دوران انھیں بے پناہ مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ۔ان پر مسلح حملے ہوئے ، ان کا سماجی مقاطعہ کیا گیا اور تو اور انھیں اپنے قریبی رشتہ داروں تک سے علیحدہ ہونا پڑا لیکن اس سب کے باوجود انھوں نے اپنی مبنی بر انصاف جد وجہد کو ترک نہیں کیا ۔
اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ ’’ میں ایک انتہائی طاقت ور مذہبی ہیت مقتدرہ سے بر سرپیکار ہوں ۔ دوران جدوجہد، میں مختلف اوقات میں بھارت کے پانچ وزرائے اعظم سے میں ملا تاکہ انھیں بوہر ہ کمیونٹی پرمسلط مذہبی پیشو ائیت کے ہاتھوں عام بوہروں کی جو در گت بن رہی ہے اس سے انھیں مطلع کروں لیکن ان میں سے ہر ایک کا یہی کہنا تھا کہ وہ اس ضمن کچھ نہیں کرسکتے‘‘ ۔ اعلی ترین ریاستی عہدید اروں کے اس اظہار بے بسی سے مایوس ہونے کی بجائے انجینئر نے پہلے سے بھی زیادہ قوت اور عزم کے ساتھ اپنی جدو جہد جاری رکھی ۔
انجینئرکے والد کا شمار بوہر ہ فرقہ کے علما میں ہوتا تھا ۔ یہی وجہ کے ان کی ابتدائی تعلیم سخت مذہبی ماحول میں ہوئی تھی ۔ اپنے مذہبی پس منظر کی بدولت وہ مذہبی مباحث میں جذباتیت اور سطحیت کی بجائے دلیل اور منطق کے سہارے آگے بڑھتے ہیں ۔ بوہرہ مذہبی پیشوائیت سے ان کی نفرت کا آغاز کیسے ہوا اس بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ نو عمری میں ایک دن انھیں سید نا ( سیدنا بر ہان الدین بوہرہ فرقہ کے پیشوا) کو سجدہ کرنے کے لئے کہا گیا۔
انھوں نے یہ کہہ کر سجدہ کرنے سے انکار کردیا کہ وہ کسی انسان کو خواہ وہ کتنا ہی مقدس اور پاک باز کیوں نہ ہو سجدہ نہیں کریں گے کیونکہ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا جائز نہیں ۔سیدنا کاایک کارندہ انجینئر کے انکار کو سن کر غصے میں آگ بگو لا ہو گیا اور اس نے شیطان کہتے ہوئے انھیں گردن سے پکڑ کر زبر دستی سجدہ کرنے پر مجبور کیا ۔
پاس کھڑے ان کے والد لا چاری اور بے بسی کی تصویر بنے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے لیکن ا ن میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ اپنے نو عمر بیٹے کی مدد کر سکتے کیونکہ ایسا کرنا سیدنا کی شان میں گستاخی کے مترادف تھا اور کوئی بوہرہ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اپنے والد کی بے بسی اور لا چاری انجینئر کے دل پر گہرے نقوش چھوڑ گئی ۔
اس واقعہ کے بہت سال بعد انھوں نے اودھے پور کے ان بوہروں جنھوں نے سیدنا کی اتھارٹی کو چیلنج کیا تھا ،کے حق میں آرٹیکل لکھا جس پر بوہرہ پیشوایت کے ایما پر ٹائمز آف انڈیا کے دفتر کا گھیراؤ کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ اگر اخبار نے معافی نہ مانگی تو اس کا دفتر جلا دیا جائے گا ۔ بات اخبار تک محدود نہ رہی خود انجینئر سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھی معافی مانگیں لیکن انھوں نے معافی مانگنے سے انکار کردیا۔
اصغر علی انجینئر لکھتے ہیں کہ معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا تھا ،میں تو مذہب کے نام پر استحصال کے خلاف تھا نہ کہ مذہب کے خلاف ۔میں تو استحصال اور آزادی اظہار پر سیدنا او ر ان کے کارندوں کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیوں کے خلاف تھا اور یہ میرا اسلامی اور آئینی حق تھا ۔
لیکن ان کے رشتے دار ان کی یہ دلیل تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے وہ کسی اصول یا اپنے حق کی خاطر لڑنے یا جدوجہد کرنے کے لئے قطعا تیار نہیں تھے ۔بالا خر مجھے الٹی میٹم دے دیا گیا کہ اگر میں ان سے کسی قسم کا تعلق رکھنا چاہتا ہوں تو مجھے سیدنا کے خلاف اپنی جدو جہد ترک کرنا ہوگی بصورت دیگر وہ میر ی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہوں گے ۔ وہ دن اور آج کا دن میرے خاندان کا کوئی فرد پھر مجھ سے کبھی نہیں ملا ۔
ان کی والدہ سیدنا سے وفاداری اور اپنے بیٹے سے محبت کے مابین منقسم رہیں ۔ اگرچہ انھوں نے سیدنا کا انتخاب کیا لیکن اس کے باوجود انھیں بوہرہ کمیونٹی میں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا تھا ۔ انجینئر لکھتے ہیں کہ’ وہ میرے دفتر آکر ’میرے ساتھیوں کے سامنے روتیں‘۔
اصغر علی انجینئر کی خود نوشت کی خوبی سماجی اور سیاسی مظاہر کو سمجھنے اور تجزیہ کرنے کا غیر جذباتی انداز ہے ۔ انھوں نے اپنی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو ڈرامائی انداز کی بجائےا نتہائی سادگی اور انکساری سے بیان کیا ہے ۔ حتی کہ اپنے اوپر ہونے والے حملوں کے بیان میں بھی رنگ آمیزی اور مبالغہ آرائی کا عنصر مفقود ہے ۔
انھوں نے ان خطرات جن کا انھیں اپنی زندگی میں سامنا کرنا پڑا ، اس تشدد جس کا وہ کئی بار نشانہ بنے اور چار عشروں پر محیط وہ طویل اور انتھک جدو جہد جو انھوں نے بوہرہ مذہبی پیشو ائیت کے خلاف کی، ان سب کا ذکر ان کی خود نوشت میں بہت کم ہوا ہے ۔ ان کی خود نوشت کا یہ پہلو ان کے مداحین کو مایوس کرتا ہے ۔
♦