جوں جوں الیکشن قریب آرہے ہیں پاکستان کے ریاستی اداروں نے میڈیا پر کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے۔ جو میڈیا ہاؤس سیکیورٹی اداروں کی ہدایات پر عمل نہیں کرتا اس کے خلاف مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔پاکستان میں سوائے ڈیلی ڈان کے کم وبیش تمام میڈیا ہاؤسز نےسیکیورٹی اداروں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں ۔
ڈان اخبار نے اپنے 27 جون 2018 کے اداریہ میں لکھا ہے “ڈان کو ماضی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے مگر جوحالات آج پیدا کیے جارہے ہیں وہ بہت سنگین ہیں۔ اخبار کے خلاف جھوٹے الزامات پر مبنی نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے اور ڈان اور اس کے سٹاف کے خلاف تشدد پر اکسایا جارہا ہے”۔
اپنے اداریے میں مزید لکھا ہے کہ اس ملک میں سول و ملٹری چپقلش کا نشانہ فری میڈیا بنتا ہے جس کا کام آئین کو بالادست رکھنا ہے۔ ڈان کے خلاف کاروائی کا آغاز 6 اکتوبر 2016 کو شائع ہونے والےاس مضمون سے ہوا جس میں کہا گیا تھا”عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کریں وگرنہ بین الاقوامی سفارتی تنہائی کے لیے تیار ہوجائیں”۔
اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد ڈان کے خلاف باقاعدہ ایک مہم شروع کردی گئی جس میں جھوٹے الزامات، کیچڑاچھالنا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ڈان کے ایڈیٹر اور رپورٹر علیحدہ علیحدہ اور اکٹھے بھی حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی جس میں سول و ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں کےاہلکار بھی تھے، اپنا موقف بیان کیا اور صحافتی اخلاقیات کے مطابق اس خبر کاسورس بتانے سے انکار کیا۔
ڈان کے خلاف نفرت انگیز مہم میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب پچھلے ماہ نواز شریف کا انٹرویو شائع کیا۔ ڈان کے خلاف جو اقدامات کیے جارہے ہیں وہ آزادی اظہار رائے اور جمہوری معاشرے کے لیے انتہائی سنگین ہیں۔ اس کا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ ریاست کے کچھ ادارے آئین کے آرٹیکل 19 پر یقین نہیں رکھتےجس کے مطابق “ہر شہری کو تقریر کی آزادی اور اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی کا حق ہے اور اس کے ساتھ ایک آزاد پریس بھی ضروری ہے”۔
ڈان کے چیف ایگزیکٹو اور صدر اے پی این ایس حمید ہارون نے کہا ہے کہ “ہم آئین کے آرٹیکل 19کے غلط استعمال میں فریق نہیں اور نہ ہی ہم ملک میں آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹنے میں فریق بننا چاہتے ہیں”۔
ڈان کے سابق ایڈیٹر عباس ناصر نے نیویارک ٹائمز میں اپنے مضمون میں لکھا کہ ظفر عباس جو میرے پیش رو اور دوست بھی ہیں دو قاتلانہ حملوں میں بال بال بچے ہیں۔ اب انہیں قتل کی دھمکیاں بھی مل رہی ہیں مگر وہ بغیر کسی دباؤ کے اخبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔
عباس ناصر مزید لکھتے ہیں کہ ایک دھاندلی زدہ اور متنازعہ الیکشن پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔۔۔۔ پاکستانی عوام کو اپنی مرضی کے نمائندے چننے کا حق ہے جس کے لیے فری اور فئیر الیکشن چائییں اور اس کے لیے ایک آزاد پریس انتہائی ضروری ہے ۔۔ تاکہ وہ سوالات اٹھا سکے۔
♦