منیر سامی
گزشتہ دنوں مشتاق احمد یوسفیؔ کی وفات کے بارے میں یہ کہنا کچھ غلط نہ ہو گا کہ اردو زبان و ادب کا ایک درخشاں باب ختم ہوا، جس کی تابانی ابد تک قائم رہے گی۔ تمام تر لسانی سیاست اور تعصب کو الگ کرکے یہ مان لینا بھی کوئی غلط نہیں ہے کہ اردو زبان ،پاکستان کی ثقافت کا ایک لازمی عنصر ہے جس کا اثر پاکستانی معاشرہ پر گہرا ہے۔ سو یہ کہنا بھی کوئی غلط نہیں ہوگا کہ یوسفی صاحب کے انتقال سے پاکستان کی ثقافت کو بڑا نقصان ہوا ہے۔ ان کی تصانیف ہماری ثقافت کے خزانہ کا پیش بہا حصہ بھی ہیں ، اور ہماری ادبی روایت کا سرمایہ اور وراثت بھی۔
یوسفی صاحب کو عام طور پر صرف ایک مزاح نگار کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ جب کہ وہ اردو ادب کے اہم ترین نثر نگاروں میں سے ایک تھے۔ اس کو سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ ہم ان کے جملوں کی قرات کے فوری اثر یا جادو سے نکل کر کے اس ذو معنیت یا ان کنایوں کو محسوس کریں جو ہر بڑے لکھنے والی کی تحریر کا اہم ترین جزوہوتے ہیں۔ ادب کی تفہیم کے اس پلِ صراط سے گزرے بغیر ہم یوسفی صاحب کی قدر نہیں جان سکیں گے۔
ہم سے اکثر یوسفی صاحب کے بارے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ علمِ فلسفہ کے سند یافتہ تھے، اور یہ کہ ان کی نثر انسان ، زندگی ، اور معاشرہ پر گہرا فلسفیانہ تبصرہ کرتی تھی۔ انہوں نے اپنی تحریر یا اپنے فن کے بارے میں جو خود لکھا ، اس پر شاید ہم نے کم کم غور کیا ہے۔
ان کی کتاب زر گزشت سے جو ایک طرح سے ان کی سوانح کا ایک باب ہے، ان کی تحریر کے کچھ حوالے پیش ہیں: ’’ یہاں ایک چھوٹی سے دنیا کی ایک جھلک دکھانی مقصود ہے جس کا ہر خانہ ، ہر کابک، بھانت بھانت کے فرماں روایانِ نا وقت کا حجلہ پندار ہے۔ بقول مولانا حالیؔ ۔۔’جانور ، آدمی ، فرشتہ خدا۔۔آدمی کی ہیں سینکڑوں قسمیں‘۔۔ منشا سبق آموزی جہاں نہیں۔ نہ اپنے سینے میں کوئی ایسی امانت یا آگ کہ امیر خسرو کی طرح یہ کہہ سکیں کہ اس صندوقِ استخوانی میں بے شمار تحفہ ہائے آسمانی ایسے تھے جو میں نے اس دن کے لیئے بچا رکھے تھے۔ اپنے وسیلہ اظہار ۔۔۔ مزاح ۔۔ کے باب میں ، میں کسی خوش گمانی میں مبتلا نہیں۔ قہقہوں سے قلعوں کی دیواریں شق نہیں ہوا کرتیں۔ چٹنی اور اچار چٹخارے دار سہی، لیکن ان سے بھوکے کا پیٹ نہیں بھرا جاسکتا۔ نہ سراب سے مسافر کی پیاس بجھتی ہے۔ ہاں ریگستان کے شدائد کم ہو جاتے ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز، اندوہ و انبساط، کرب و لذّت کی منزلوں سے بے نیازانہ گزر جانا بڑے حوصلے کی بات ہے۔ ۔۔ بارِ الم اٹھایا ، رنگِ نشاط دیکھا۔۔ آئے نہیں ہیں یونہی انداز بے حسی کے۔۔‘‘
’’مگر یہ نہ بھولنا چاہیے کہ خوش دلی کی ایک منزل بے حسی سے پہلے پڑتی ہے اور ایک اس کے بعد آتی ہے۔ سبھی کی مسکراہٹیں ایک جیسی نہیں ہوا کرتی۔ فالسٹاف قہقہ لگاتا ہے تو روم روم مسکرا اٹھتا ہے۔‘‘
’’قومیں جب اللہ کی زمین پر اِترا اِتر اکر چلنے لگتی ہیں تو زمین اپنے ہی زہر قند سے شق ہوجاتی ہیں اور تہذیبیں اس میں سما جاتی ہیں، شیر خوار بچے خوش ہوتے ہیں تو کلکاریاں مارتے، ہمک کر ماں کی گود میں چلے جاتے ہیں۔ ۔۔۔ ایک مسکر اہٹ وہ ہے جو نروان کے بعد گوتم بدھ کے لبوں کو ہلکا سا خمیدہ کر کے اس کی نظریں جھکا دیتی ہےــ‘‘۔
’’یہ سب سہی ، لیکن ماوارئے تبّسم وہ اہتزاز اور مزاح جو سوچ سچائی اور دانائی سے عاری ہے، دریدہ دہنی، پھکّڑ پن اور ٹھٹھول سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ زر، زمین، زن، اور زبان کی دنیا یک رخوں ، یک چشموں کی دنیا ہے۔ مگر تتلی کی سینکڑوں آنکھیں ہوتی ہیں، اور وہ ان سب کی مجموعی مدد سے دیکھتی ہے ۔شگفتہ نگار بھی اپنے پور ے وجود سے دیکھتا، سُنتا، سہارتا چلا جاتا ہے، اور فضا میں اپنے سارے رنگ بکھیر کے کسی نئے افق، اور شفق کی تلا ش میں گُم ہو جاتا ہے۔ ‘‘
ان کی پہلی کتاب ، چراغ تلے ، سے یہ حوالہ ملاحظہ ہو ، ’’ خام فن کار کے لیئے طنز ایک مقدس جھنجھلاہٹ کا اظہار بن کر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ ہر وہ لکھنے والا جو سماجی اور معاشی ناہمواریوں کو دیکھتے ہی دماغی بائوٹے میں مبتلا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے ، خود کو طنز نگار کہنے اور کہلانے کا سزاوار سمجھتا ہے ۔ لیکن سادہ و پر کار طنز ہے بڑی جان جوکھوں کا کام ۔ بڑے بڑوں کے جی چھوٹ جاتے ہیں ۔ اچھے طنز نگار تنے ہوئے رسے پر اِ ترا اِ ترا کر کرتب نہیں دکھلاتے ، بلکہ۔۔۔ رقص یہ لوگ کیا کرتے ہیں تلواروں پر۔۔‘‘
’’اور اگر ژاں پال سارتر کی مانند ’دماغ روشن و دل تیرہ و نگاہ بیباک ‘ تو جنم جنم کی یہ جھنجھلاہٹ آخرکار ہر بڑی چیز کو چھوٹی دکھانے کا ہنر بن جاتی ہے۔ لیکن یہی زہرِ غم جب رگ و پے میں سرایت کر کے لہو کو کچھ اور تیز و تند وتوانا کر دے تو نس نس سے مزاح کے شرارے پھوٹنے لگتے ہیں۔ عملِ مزاح اپنے لہوکی آگ میں تپ کر بکھرنے کا نام ہے۔ لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے اور کوئلہ راکھ۔ لیکن گر کوئلے کے اندر کی آگ باہر کی آگ سے تیز ہو تو پھر وہ راکھ نہیں بنتا ، ہیرا بن جاتا ہے‘‘۔
آج یوسفی ؔ صاحب کو یاد کرتے وقت بہتر یہی تھا کہ ہم آپ کے سامنے وہ معیار پیش کر دیں جو انہوں نے اول دن سے ہی اپنے لیے طے کر لیے تھے، جن پر وہ قائم رہے ۔ ان کو جانے بغیر ہم اور آپ یوسفیؔ صاحب کے منصب کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس کو سمجھنے کی شرط یہ ہے کہ قاری خود بھی ادب، فلسفے، اورتاریخ کی گہرائیوں سے واقفیت رکھتا ہو، اور معانی شناسا ہو۔
One Comment