زاہد عکاسی
وقت کا بہتا دریا اپنے ساتھ یادوں کے خس و خاشاک بہا کر لے جاتا ہے لیکن کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے دریا کی سطح پر بار بار ابھر آتی ہیں۔ کئی برس کی گزری ہوئی بعض باتیں کل کی ہی معلوم ہوتی ہیں۔ یہ 1956ء کے اوائل کی بات ہے کہ مجھے چھوٹی عمر میں ہی ماڈرن ایج فلمز میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کمپنی کے مالک بایزید احمد خاں تھے جو میرے بڑے بھائی کے دوست تھے۔ وہی مجھے اس کمپنی میں لے کر گئے تھے اور انہوں نے مجھے اس وقت کے ممتاز تدوین کار علی کے سپرد کر دیا تھا۔ ان دنوں علی ایورنیو سٹوڈیوز میں کام کرتے تھے۔ یہ سٹوڈیوز مسلم ٹاؤن میں نہر کنارے واقع تھا کبھی یہ پنچولی سٹوڈیو ہوا کرتا تھا اور اس کے مالک ولسکھ پنچولی تھے جو آشا پوسلے مرحومہ کے شوہر تھے اور پاکستان کی پہلی فلم “تیری یاد“بھی انہوں نے ہی بنائی تھی۔ آشا پوسلے اس فلم کی ہیروئن تھی اور یوں اسے پاکستان کی پہلی ہیروئن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
ان دنوں لاہورمیں لاتعداد سٹوڈیوز اور بے شمار سینما گھر تھے۔ ایورنیو سٹوڈیوز کے علاوہ اپر مال روڈ پر ملکہ سٹوڈیوز تھا جو ملکہ پکھراج کو الاٹ ہوا تھا۔ ماڈرن ایج فلمز کی ’’پھولے خان‘‘کی شوٹنگ اسی سٹوڈیوز میں ہوتی تھی اور مشہور زمانہ فلم ’’عشق لیلیٰ‘‘کی شوٹنگ بھی اسی سٹوڈیوز میں ان دنوں رات گئے جاری رہتی تھی۔ ملکہ سٹوڈیوزکے علاوہ فیروز پور روڈ پر سکرین اینڈ ساؤنڈ سٹوڈیوز تھا جہاں اب کوئی کارخانہ ہے۔ پھر میکلوڈ روڈ پر ریجنٹ سینما کے پیچھے بجلی گھر کی دیوار کے ساتھ سٹی سٹوڈیو بھی ہوا کرتا تھا جبکہ ملتان روڈ پر صرف شاہ نور سٹوڈیو اپنی بہار دکھا رہا تھا جس کے مالک شوکت حسین رضوی اور ملکہ ترنم نورجہاں ہوا کرتے تھے۔ ان تمام سٹوڈیوز میں فلموں کی شوٹنگ ہوا کرتی تھی اور فلمیں بھی معیاری ہوا کرتی تھیں جو اپنے دامن میں کسی نہ کسی موضوع کو سمیٹے ہوئے ہوتی تھیں۔
جب مجھے علی صاحب کی شاگردی میں چھوڑا گیا تو انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ میں ان کے ایک اور شاگرد اصغر کے پاس چلا جاؤں جو شاہ نور سٹوڈیوز کے ایڈیٹنگ روم میں فلم ’’آس پاس‘‘کی تدوین میں مصروف تھے ۔ میں وہاں پہنچا کمرہ ریکارڈنگ روم کے ساتھ تھا اور یہاں اصغر صاحب ’’آس پاس‘‘کے رش تدوین کے آلہ پر چیک کر رہے تھے۔ ان کے پاس ایک اور لڑکا بھی موجود تھا جس کا نام معراج تھا۔ معراج تمام شاٹس کو لپیٹ کر ڈبوں میں بند کر رہا تھا۔ مجھے بھی فلم کے این جی شاٹس لپیٹنے کا حکم ملا۔ میں یہ شاٹس ان ہی کی طرح لپیٹنے لگا۔ استاد صاحب کرسی پر بیٹھے تدوین میں مصروف تھے اور ہم لوگ ان کے پیچھے کھڑے فلم کا فیتہ چیک کر رہے ہوتے۔ ’’آس پاس‘‘کو جلد ہی ریلیز ہونا تھا اور تدوین اب آخری مراحل میں تھی اس کی آواز بھی چیک کی جا رہی تھی اور مکالمے بار بار سنے جا رہے تھے جو عوامی اداکار علاؤ الدین نے عدالت میں جج کے سامنے بولے تھے ۔
’’جج صاحب یا تو مجھے ایسی جگہ بھیج دیں جہاں بھوک نہیں لگتی، اناج نہیں اگتا یا میرے ساتھ بھوک کو بھی پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیں تاکہ آنے والی نسلیں محض بھوک کی خاطر جرائم نہ کر سکیں۔ جج صاحب آپ کا قانون ایک بیگناہ کو پھانسی تو دے سکتا ہے روٹی نہیں دے سکتا‘‘۔
’’آس پاس‘‘کی ریلیز سے پہلے ان ہی مکالموں پر مشتمل بڑے بڑے پوسٹر دیواروں پر لگائے گئے تھے اور اس فلم کی خوب پبلسٹی ہوئی تھی اس فلم کی کہانی انور بٹالوی نے لکھی تھی اور اس کے مکالمے بابا ظہیر کاشمیری نے تحریر کئے تھے جبکہ اس کے ہدایت کار ایم اے رشید تھے یہ بھارتی فلم ’’ہم لوگ‘‘کے پائے کی فلم تھی جو ہدایت کار ضیا سرحدی (خیام سرحدی کے والد) نے تیار کی تھی۔’’ ہم لوگ‘‘ کے مکالمے برصغیر پاک و ہند میں یکساں مقبول ہوئے تھے ان دنوں فلمیں بارٹر سسٹم پر آیا کرتی تھیں۔ ’’ہم لوگ ‘‘نے خوب رش لیا تھا۔ اس کے مکالمے بھی فلم کی جان تھے۔ نوتن اور بلراج ساہنی نے کمال کی اداکاری کی تھی۔ اس میں نوتن کو ٹی بی مریضہ اور بلراج ساہنی کو بیروزگار نوجوان دکھایا گیا تھا دونوں بہن بھائی غربت کی چکی میں پس رہے تھے۔ ان کے پاس علاج کے لئے بھی پیسے نہیں تھے۔ ایک روز وہ آتا ہے اور نوتن سے کہتا ہے
پارو تم مر کیوں نہیں جاتی۔۔بھیا موت نہیں آتی،جس دئیے میں تیل نہ ہو اسے جلنے کا کیا ادھیکار،۔۔۔بھیا دیا خود نہیں جلتا بلکہ دئیے کا تیل جلتا ہے،۔۔۔یہی تو میں پوچھتا ہوں جب تیل ختم ہو جاتا ہے تو۔۔۔
صبح ہو جاتی ہے۔نہیں صبح کبھی نہیں ہوتی اندھیرا چھا جاتا ہے،
“ہم لوگ“کے بعد’’ آس پاس ‘‘دوسری فلم تھی جو اس سے زیادہ کامیاب ہوئی تھی اس کے گیت بھی ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے۔اختر حسین اکھیاں اس فلم کے موسیقار تھے۔ اس فلم کے گیتوں کی ریہرسل اختر حسین اکھیاں ماڈرن ایج فلمز کے دفتر میں کیا کرتے تھے جو ریجنٹ سینما کے اوپر واقع تھا۔ اختر حسین اکھیاں اس کا یہ گیت گاتے، کیا کوئی مسکرائے جب دل ہی ٹوٹ جائے، دنیا نے آرزو کے سارے دئیے بجھائے۔اب آس پاس دل کے رہتے ہیں غم کے میلے،کب تک میری محبت ان آنسوؤں سے کھیلے
اس طرح علاؤ الدین پر فلمایا گیا یہ گیت بھی خاصا مقبول ہوا تھا۔ بیدرد زمانے والوں نے کب درد کسی کا جانا ہے،جگ سے کوئی امید نہ کر یہ جھوٹا ہے بیگانہ ہے،ان خودمختار خداؤں پر کیا تیرا زور نہیں چلتا،کیا تو بھی ان سے ہار گیا۔۔۔۔!’’آس پاس‘‘ ریجنٹ سینما میں ہی ریلیز ہوئی تھی اور ہم لوگ اس کو تقریباً روزانہ ہی دیکھتے تھے۔
شاہ نور سٹوڈیوز میں ان دنوں مسرت نذیر کا بڑا بول بالا تھا وہ تقریباً ہر پنجابی فلم میں ہوا کرتی تھی۔ پاٹے خان میں ایک طرف اگر مسرت نذیر تھی تو دوسری طرف میڈم نورجہاں بھی موجود تھی۔ اس کے علاوہ اسلم پرویز، منور ظریف اور دیگر لاتعداد فنکار اس فلم میں موجود تھے۔ یہ فلم ماڈرن ایج فلمز کی پہلی فلم تھی اور بے پناہ کامیاب ہوئی تھی۔ پاٹے خان میں منور ظریف اور اسلم پرویز پہلی بار آئے تھے اور یہ سب سپرہٹ ثابت ہوئے تھے۔ پاٹے خان کے بعد اس پروڈکشن نے اپنے بینر تلے دوسری فلم پھولے خاں شروع کی تھی ۔ یہ فلم قومی یکجہتی پر بننے والی پہلی فلم تھی جو حزیں قادری نے لکھی تھی اس میں صبیحہ، اسلم پرویز، اختر نیلی، ظریف، زورین ، ساقی، سیف شاہ غلام محمد آشا پوسلے اور جانباز مرزانے کام کیا تھا، جانبازمرزا اس فلم کے پروڈکشن کنٹرولر بھی تھے۔
جانبازمرزا کا تعلق مجلس احرار اسلام سے تھا اور اس کمپنی کے روح رواں بھی مجلس احرار ہی کے ایک رکن تھے جبکہ ان کے عزیز اسلام الدین شامی اس فلم کے پروڈیوسر تھے یہ سب جالندھر سے ہجرت کر کے آئے تھے شامی صاحب نے قلعہ گوجر سنگھ میں رہائش اختیار کی ہوئی تھی۔
اس فلم کی کہانی میں بتایا گیاتھا کہ پاکستان کے پانچوں صوبوں کے نوجوان مل کر ایک گاڑی خریدتے ہیں۔ ان نوجوانوں میں سندھی، بلوچی، سرحدی اور بنگالی شامل ہوتے ہیں۔ ان سب کا ایک دوست اسلم پرویز ہوتا ہے جو سب کو اکٹھے رکھتا ہے ایک روز بنگالی کسی بات پر جھگڑ کر اپنے حصے کے پہیے اتار لیتا ہے جس پر گاڑی چلنا بند ہو جاتی ہے ۔ ان سب کو کافی پریشانی ہوتی ہے آخر اسلم پرویز ان سب کی صلح کراتا ہے اور گاڑی پھر سے دوڑنے لگتی ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر تمام صوبے دوستی اور اخوت کے رشتوں میں بندھے رہیں تو یہ ملک قائم رہے گا ورنہ۔۔۔۔۔
اور پھر اس فلم کے 15برس بعد مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا۔ ’’پھولے خاں‘‘کے لئے کٹڑی کا سیٹ لگایا گیا تھا۔ اس کٹڑی میں ہی تمام لوگ رہتے ہیں ایک طرف ایک دھوبی کا مکان ہے جس کی بیٹی جامنی (صبیحہ) بھٹی پر کپڑے رکھے آگے جلانے میں مصروف ہے اس کی ایک سہیلی رجنی (اختر نیلی) داخل ہوتی ہے اور کہتی ہے۔ جامنی بس اب ہاتھ روک لو۔۔۔ بھٹی کو اور تاؤ کی ضرورت نہیں۔ ۔۔رجنی اس کا نام بھٹی کیوں ہے جامنی کیوں نہیں رکھ دیا جاتا تاکہ یہ ساری عمر خود بخود جلتی رہے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے مکالمے سمجھانے کے بعد انہیں ریہرسل کے لئے کہا تو صبیحہ نے مکالمہ ادا کرتے ہوئے کہا اس کا نام بھٹی کیوں ہے عنایت بھٹی کیوں نہیں رکھ دیاجاتا اس پر سب کھلکھلا کر ہنس پڑے اور ہدایت کارنے سب کو سنجیدہ ہونے کے لئے کہا لیکن ظریف جو قریب ہی کھڑے تھے سیٹ پر موجود ایک لڑکے کو کہنے لگے ’’پیالی چک مینوں چک پڑی ہوئی اے“۔
پھولے خان کے سیٹ پر یوں تو تمام فن کار اپنے کام میں مگن ہوتے ہیں لیکن ظریف، ساقی اور جانباز مرزا کی موجودگی میں جگتوں کا کاروبار تیز ہو جاتا۔ ایک روز جانباز مرزا نے آشا پوسلے کو جگت ماری تو آشا بولی مرزا صاحب میں آپ کی بڑی عزت کرتی ہوں آپ مجھے جگت ماریں گے تو میں بھی کسی سے کم نہیں ہوں ترکی بہ ترکی جواب دینا مجھے بھی آتا ہے۔ اس فلم میں سیف شاہ بل فائٹر کا کردار ادا کر رہے تھے جبکہ وہ عالمی فری سٹائل پہلوان تھے۔اسی طرح زورین جس نے بلوچی کا کردار ادا کیا تھا بنیادی طور پر پینٹر تھا زورین نے بعد ازاں فیض احمد فیض کی لکھی ہوئی کہانی میں فلم “جاگو ہوا سویرا“میں ہیرو کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار اے جے کاردار تھے اس فلم نے کئی ایوارڈ حاصل کئے البتہ یہ فلم باکس آفس پر بری طرح ناکام رہی تھی۔
پھولے خان ابھی زیر تکمیل تھی کہ ایوریڈی پروڈکشن اور انور کمال پاشا کے درمیان ایک فلم عشق لیلیٰ کے سلسلہ میں جھگڑا ہو گیا۔ اور انہوں نے ایوریڈی کے لئے لیلیٰ مجنوں پر فلم بنانے سے انکار کر دیا۔ ایوریڈی والے بھی ضد میں آ گئے اور انہوں نے ہدایت کار منشی دل کو لے کر فلم “عشق لیلیٰ“کا آغاز کر دیا۔ عشق لیلیٰ کی کہانی بھی انہوں نے خود ہی لکھی تھی جبکہ گیت قتیل شفائی کے اور موسیقی رشید عطرے کی تھی ۔ انور کمال پاشا نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی فلم “لیلیٰ مجنوں“کا آغاز کر دیا۔ عشق لیلیٰ میں مجنوں کا کردار سنتوش نے اور لیلیٰ کا کردار صبیحہ کے ذمے تھا۔ جبکہ لیلیٰ مجنوں میں لیلیٰ کے کردار میں بہار اور مجنوں کے کردار میں اسلم پرویز تھے۔
دونوں فلموں میں دوڑ شروع ہوئی ہر ایک کی کوشش تھی کہ فلم عید الفطر پر ریلیز کر دی جائے اس دوڑ میں شامی پکچرز والوں نے بھی شامل ہونے کی کوشش کی انہوں نے فلم کا نام لیلیٰ مجنوں عرف عشق لیلیٰ رکھا۔ مجنوں کا کردار ظریف کے سپرد کیا گیا لیکن انڈسٹری کے بعض بڑوں کے سمجھانے پر انہوں نے اس مقابلہ سے ہاتھ روک لیا۔ عید سے دو تین ہفتے قبل ان فلموں کی پبلسٹی شروع کر دی گئی۔ ان دنوں ٹی وی نہیں ہوا کرتا تھا اور نہ ہی ریڈیو پر پبلسٹی کا کوئی طریقہ کار تھا۔ صرف ایک آدھ اخبار “امروز” ہی فلموں کے اشتہار شائع کرتا تھا۔ اس کے بعد تانگہ پبلسٹی تھی اور یا پھر ڈھول اور گھنٹی کے ساتھ بورڈ اٹھائے پیدل لڑکے سڑکوں پر گھومتے تھے۔
عشق لیلیٰ والوں نے پبلسٹی کاایک نیا طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے لاتعداد اونٹ کرائے پر لئے۔ ان پر عربی لباس پہنے ہوئے لڑکے بٹھائے گئے۔ آگے آگے ڈھول والا ڈھول بجاتا میکلوڈ روڈ پر جاتا پیچھے اونٹ ہوتے اور یوں نجد کے صحرا میں آنکھوں کے سامنے لانے کی کوشش کی جاتی۔ دونوں فلموں کی شوٹنگ زور شور سے جاری تھی۔ ملکہ سٹوڈیوز کے ایک فلور میں عشق لیلیٰ کے صحرا کا سیٹ لگایا گیا تھا۔ جس پر جلدی میں کھجوروں کی بجائے آم کے درختوں کے تنے گاڑ دئیے گئے تھے۔ صحرا بنانے کے لئے آٹھ دس ٹرک ریت لائی گئی تھی جسے فلور پر پھیلا دیا گیا تھا اس صحرا میں مجنوں (سنتوش کمار) پہلوان (جسم کے لحاظ سے) گانا گا رہا تھا ، جگر چھلنی دل گھبرا رہا ہے،محبت کا جنازہ جا رہا ہے
اس فلم کے تمام گیت ہی مقبول ہوئے تھے۔ عشق لیلیٰ عید سے ایک ہفتہ قبل ہی سنسر کرا لی گئی اور اس روز جمعہ کو ڈیٹ دے دی گئی انور کمال پاشا نے جب یہ دیکھا تو انہوں نے بھی فلم عید سے ایک ہفتہ قبل ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں فلمیں ریلیز ہوئیں لیلیٰ مجنوں فلاپ ہو گئی جبکہ باقی شہروں میں یہ فلمیں عید پر ہی ریلیز کی گئیں۔ عشق لیلیٰ میں ایک اور بات بھی دلچسپ تھی کہ نجد کے صحرا میں جو خیمے لگائے گئے تھے ان پر لکھا تھا رلدو محمدامین اینڈ کو، سرکلر روڈ، لاہور۔
پھولے خان ریلیز ہوئی تو اسے لوگوں نے پسند نہیں کیا اور فلم فلاپ ہو گئی فلاپ ہونے کے بعد شامی فلمز کا ادارہ زیادہ دنوں تک نہ چل سکا۔ شامی فلمز والوں کا رابطہ پاپولر پکچرز والوں کے ساتھ تھا۔ پاپولر پکچرز والے فلم پردیسن بنا رہے تھے جبکہ ان کی فلم پینگاں نے کافی بزنس حاصل کیا تھا۔ پردیسن میں فردوس نے بڑا جاندار کردار کیا تھا۔ ان فلموں کے گانے نورجہاں نے گائے تھے اور وہ پاپولر پکچرز کے پروپرائیٹر نسیم کے قریب ہو گئی تھی نسیم سے دوستی کافی دیر چلی جبکہ چوڑیاں کی کامیابی کے بعد لیلیٰ بھی انڈسٹری میں دھوم مچا چکی تھی۔ لیلیٰ نے بعد ازاں نسیم سے شادی کر لی تھی اور گھر گرہستن ہو کر رہ گئی تھی۔
ان ہی دنوں بھارت سے آئے ہوئے ہدایت کار کرشن کمار نے سید عطاء اللہ شاہ ہاشمی سے مل کر فلموں کے ایک پیکج کا اعلان کیا۔ کرشن کمار پہلے ہدایت کار تھے جنہوں نے بھارتی فلموں کا چربہ شروع کیا۔ انہوں نے بھارتی فلم ممتا کی کاپی نوکر کے نام سے شروع کی جس میں سورن لتا نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ سورن لتا ہدایت کار نذیر کی اہلیہ تھیں اور مسلمان ہو گئی تھیں ان کا اسلامی نام سعیدہ رکھا گیا تھا نوکر باکس آفس پر ہٹ ثابت ہوئی تھی اس کی یہ لور ی بہت مقبول ہوئی تھی۔ راج دلارے میرے اکھیوں کے تارے،میں تو واری واری جاؤں
اس فلم کے بعد سورن لتا اور نذیر نے صابرہ نور اسلام اور ہیر رانجھا وغیرہ بنائیں۔ ہیر رانجھا میں ہیرو عنایت حسین بھٹی تھے۔ انہوں نے رانجھے کا کردار اس کمال مہارت سے کیا تھا کہ ان پر اصل رانجھے کا گمان ہوتا تھا۔ عنایت حسین بھٹی نے بعد ازاں تھیٹر شروع کر دیا تھا۔ یہ تھیٹرپنجاب کے مختلف شہروں میں میلوں پر اپنے شو دکھاتا تھا، ایک بار یہ تھیٹر میلہ منڈی لائل پور میں ہیر رانجھے کا ڈرامہ کر رہا تھا کہ ہمیں اطلاع ملی، ہم اپنے فن کار دوستوں کے ساتھ میلہ منڈی میں پہنچ گئے۔
عنایت حسین بھٹی کو اپنے بارے میں بتایا کہ ہم لوگ لائل پور کے فن کار ہیں شہر میں سٹیج ڈرامے کرتے ہیں ساتھ ہی ساتھ تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں اس پر بھٹی صاحب نے ہمیں اپنا تھیٹر دیکھنے کی دعوت دی۔ تھیٹر شروع ہوا کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ڈرامہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا کہ ہیرو اور ہیروئن مکالمے بول رہے تھے کہ ایک سپاہی سٹیج پر آگیا اور آتے ہی بھٹی صاحب کو کہنے لگا “بھٹی صاحب تہانوں تھانیدار صاحب بلا رہے ہیں” بھٹی صاحب نے اسے جواب دیا “میں تھیٹرختم کرتے ہی آتا ہوں” اور اس کے بعد ہیروئن سے رومانی مکالمے بولنے لگے۔
بھٹی صاحب نے ہمیں بتایا کہ فلم میکنگ، گھر پھونک تماشا دیکھنے ،والی بات ہے۔ تھیٹر سے پیسہ کمانے کے بعد انہوں نے ذاتی پروڈکشن شروع کی اور لاتعداد پنجابی فلمیں بنائیں جن میں “ظلم دا بدلہ“نے کامیابی کے ریکارڈ توڑ دئیے۔ اس فلم کے ہدایت کار کیفی اور رائٹر حفیظ احمد تھے۔
ذکر ہو رہاتھا کرشن کمار کا جنہوں نے یہاں چربہ سازی کا آغاز کیا تھا انہوں نے اپنا اسلامی نام کے خورشید رکھ لیا تھا۔ نوکر کے بعد انہوں نے لاتعداد چربہ فلمیں بنائیں جن میں چھوٹی بیگم بھارتی فلم بیراج بہو کی، نیا دو بھارتی فلم نئی دہلی کی داتا فلم ناستک کی کاپی تھی۔ چربہ سازی کا یوں تو آغاز ایوریڈی پکچرز کی فلم ’’سسی‘‘کے ایک گانے سے ہوا تھا۔ بھارتی فلم شرط میں لتا کا گیت۔نہ یہ چاند ہو گا نہ تارے رہیں گے، مگر ہم ہمیشہ تمہارے رہیں گے،کافی مشہور ہوا تھا اور جگدیش چند آنند نے یہی گیت “سسی“میں صبیحہ پر پکچرائز کرایا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار داؤد چاند تھے جو ایک منجھے ہوئے ڈائریکٹر مانے جاتے تھے۔ کرشن کمار نے ایک اور مزے کی بات کی تھی وہ ان ہی دنوں بھارت گئے تھے اور وہاں جا کر ایک پاکستانی فلم کرتار سنگھ کا چربہ جرنیل سنگھ کے نام سے بنا دیا تھا۔
3 Comments