عامر گمریانی
استاد شاگرد سے پوچھتا ہے “تاریخ کی مشہور لڑائیوں کے نام بتاؤ؟”۔ معصوم شاگرد جواب دیتا ہے “امی نے گھر کی باتیں باہر کرنے سے منع کیا ہے” تحریکِ انصاف کے اچھے بچے دنیا جہان کی کرپشن کی داستانیں سناتے تھکتے نہیں۔ پاکستان کے اندر اور باہر جو بھی کرپشن ہوئی ہے، ان کی عقابی نظروں سے چھپ نہ سکی۔ ہر چوک اور چوراہے پر یہ اچھے بچے آپ کو کرپشن کی کہانیوں سے دلوں کے تار چھیڑتے نظر آئیں گے۔ یہ بات البتہ دوسری ہے کہ اپنی ناک کے نیچے ہونے والی کرپشن انہیں کبھی نظر نہیں آئی، ان کی نزدیک کی نظر شائد کمزور ہے۔
اللہ بھلا کرے محترم سلیم صافی کا، جن کی وساطت سے معلوم ہوا کہ پختونخوا ہاؤس اسلام آباد پچھلے پانچ برسوں میں برابر گرم رہا۔ تبدیلی کے علمبرداروں نے پختونخوا کے عوام کے پیسوں سے خوب موج مستیاں کیں۔ چائے پانی پر کروڑوں لٹائے گئے۔ پچھلے تین سال کے کاغذات تبدیلی کی حقیقت واضح کررہے ہیں۔ کچھ کم اکیس کروڑ ۔
جی ہاں ایک سال کے سات کروڑ۔ کہتے ہیں چائے میں تین خصوصیات ہونی چاہیے؛ چائے لب سوز ہو، لب دوز ہو اور لبریز ہو۔ تیسری خصوصیت دراصل پیالے سے متعلق ہے، یعنی پیالہ بھرا ہوا ہو۔ تبدیلی جہاں ہر چیز کے پیچھے پڑی ہے وہاں چائے کی خصوصیات میں بھی اضافہ کرکے تبدیلی لا کر رہی؛ یعنی چائے لبریز، لب دوز اور لب سوز ہونے کے ساتھ ساتھ ‘جیب سوز’ بھی ہو، بشرطیکہ جیب اپنی نہیں عوام کی ہو۔
تین تین لاکھ کے بل وہ بھی مہینے کے نہیں، ہفتے کے بھی نہیں فقط ایک دن کے۔ اتنی مہنگی چائے تو گنز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ پانے لائق ہے۔ ہمیں تو خدشہ ہے کہ چائے کے نام پر کوئی خاص مشروب تو نہیں آتا رہا جس کا نام خوفِ فسادِ خلق کے باعث بیگانہ رہ گیا یا چائے رکھ دیا گیا۔
متبرک کاغذات میں شاہ محمود، جہانگیر ترین، اسد عمر ، اعظم سواتی اور بذات خود خان صاحب کے اسماء گرامی موجود ہیں، توبہ توبہ ایک دن کا چائے پانی چار چار لاکھ تک۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ ان صاحبان میں کوئی بھی صوبائی اسمبلی کا ممبر نہیں، لہذا پختونخوا ہاؤس کے ساتھ ان کا براہ م راست کوئی تعلق نہیں بنتا پھر بھی تخت لاہور کی لڑائی کا خرچہ پختونخوا کے بھوکے ننگے عوام ادا کرتے رہے۔ شکریہ پرویزخٹک۔
معلومات تک رسائی کا قانون بروئے کار لاتے ہوئے اگر کسی کے ہاتھ پختونخوا کےوزیراعلی ہاؤس کا حساب کتاب لگا تو یقیناً اس سے کئی گنا زیادہ ہوگا کہ بہت سے ندیدوں کو صبح شام وزیراعلی ہاؤس کی زیارت کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں تھا جہاں وزیراعلی کے فرزند منی وزیراعلی بنے ‘انٹرنشپ’ پر تھے۔ ٹریننگ کی ٹریننگ، سٹیٹس کا سٹیٹس اور مال کا مال۔
کوئی تین سال پہلے خاکسار کو بھی وزیراعلی ہاؤس میں شرفِ باریابی بخشی گئی تھی۔ خان صاحب بھی تشریف لائے تھے۔ پختونخوا کے شاعروں، ادیبوں اور ہنرمندوں کو “ثقافت کے زندہ امین’ ایوارڈز دینے تھے جن میں خاکسار کا نام بھی شامل تھا۔ وزیراعلی نے خانہ پری کے لئے کوئی بے ربط سی تقریر کی تھی، خان صاحب کی تقریر البتہ متاثرکن تھی۔
تقریب کے بعد جب لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑے تو خاکسار خان صاحب کی تلاش میں نکل پڑا۔ میرے نوزائدہ سکول میں بہت سے والدین اپنے بچوں کی تعلیم کی تلاش میں آتے رہتے ہیں۔ کچھ کو فیس میں کمی چاہئے ہوتی ہے، کچھ ساری فیس ختم کرنے کی استدعا کرتے ہیں، کچھ غربت کی سطح کے نیچے زندگی گزارنے والے فیس معافی کے ساتھ کتابوں اور یونیفارم کی فراہمی کی بھی درخواست کرتے ہیں۔ تینوں مدارج میں ہمارا ادارہ اپنی بساط بھر مدد فراہم کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ایک نئے ادارے کے لئے جو اپنے اخراجات پوری نہیں کر سکتا، تمام درخواستوں کو قبول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہاتھ میں کاغذ پر اختصار لیکن واضح طور پر لکھا گیا پلان لئے ہم خان صاحب کو ڈھونڈ رہے تھے۔ خان صاحب بالآخر نظر آہی گئے لیکن درجنوں پروانوں کے بیچ جن کو فیس بک سٹیٹس کے لئے خان صاحب کے ساتھ تصاویر کی اشد ضرورت لاحق تھی۔
خان صاحب سے مایوس ہو کر خاکسار نے واپسی کا راستہ لیا ہی تھا کہ وزیراعلی صاحب پر نظر پڑی۔ رش یہاں بھی تھا، رسائی البتہ ممکن۔ دل کو حوصلہ دے کر قریب پہنچے۔ لوگ نوکریوں، ٹھیکوں، تبادلوں وغیرہ کی عرضیاں لئے وزیراعلی کے اردگرد بھنوروں کی طرح منڈلا رہے تھے۔ ہم قریب گئے اور موقع پا کر ایک پلان ان کی خدمت میں پیش کیا . مکمل بیزاری کی عالم میں وزیراعلی صاحب نے پوچھا ” یہ کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اگر حکومت سال کے بارہ ہزار روپے ہمیں ایک بچے کی کتابوں، یونیفارم، ٹرانسپورٹ اور امتحانات وغیرہ کی مد میں فراہم کرے تو ہم سرِدست پچاس بچوں کو میٹرک تک مفت تعلیم کے لئے داخل کرسکتے ہیں۔
وزیراعلی نے اپنی مخصوص رعونت کے ساتھ جواب دیا، “اس کو دیکھ لیں گے”۔ اس سے پہلے کہ ہم کچھ کہتے، وزیراعلی نے پاس کھڑے اپنے کسی معاون کو اشارہ کیا جس نے میرے ہاتھ سے کاغذ لے لیا۔ وزیراعلی نے منہ پھیر لیا اور ہم نے واپسی میں ہی عافیت جانی۔ وہ دن اور آج کا دن، کئی بار رابطے کے باوجود بات آگے نہیں بڑھ سکی۔
کل چائے پانی کے ایک دن کے بل پر نظر پڑی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کچھ کم چار لاکھ روپے۔ اتنے پیسوں میں ہم تین طالب علموں کو دس دس سال تک مکمل طور پر مفت تعلیم دے سکتے تھے یا چونتیس (34) بچوں کے لئے پورے ایک سال کی مفت تعلیم۔ تین سال کے چائے پانی یعنی اکیس کروڑ روپے سے آٹھ ہزار بچوں کو ایک سال یا آٹھ سو بچوں کو دس سال تک بہترین تعلیم مل سکتی ہے۔
چائے پینی ضروری ہے اس سے دماغ تیز کام کرتا ہے۔ چائے جتنی مہنگی ہو، دل و دماغ پر اس کے اثرات اتنے ہی دیرپا ہوتے ہیں اور رموز مملکت سلجھانے میں آسانی ہوتی ہے۔ رہی تعلیم تو اس کے بغیر بھی پچھلے اکتر سال سے ‘اشرف المخلوقات’ خوب مزے کررہے ہیں، رہے عوام تو حشرات الارض کا کیا ہے، رہے نہ رہے، اس سے آخر فرق ہی کیا پڑتا ہے۔
♦