پاک فوج کاماٹواور سراج الحق صاحب کی منطق

طارق احمدمرزا

امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے(جوموجودہ الیکشن ہار چکے ہیں) چند ماہ قبل نیوزوَن چینل کی اینکرپرسن نادیہ مرزاکوانٹرویودیتے ہوئے فرمایاتھا کہ جب تک پاک فوج کا ماٹو ’’ایمان،تقویٰ،جہاد فی سبیل اللہ‘‘مقرر ہے اور مقرر رہے گا،تب تک کسی غیر مسلم، بالخصوص احمدیوں کو پاک فوج میں ملازمت نہیں دی جاسکتی۔

آپ سے یہ انٹرویوکیپٹن(ر) محمدصفدرصاحب (جو آج کل جیل میں ہیں)،کی سابقہ قومی اسمبلی میں کی گئی احمدیہ مخالف تقریرکے تناظرمیں لیا گیا تھا۔

جناب سراج الحق صاحب نے اپنے نکتہ نظر کی جو منطقی تشریح پیش فرمائی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک شخص غیر مسلم ہے تو اس کا’’ ایمان‘‘ کہاں سے آئے گا؟اور جب ایمان ہی نہیں تو ’’تقویٰ‘‘ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،اور جب ایمان ہونہ تقویٰ تو ایسے شخص سے ملک کے دفاع میں ’ ’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ بجا لانے کی امید باندھنا یا توقع رکھنا کیسے ممکن ہے ؟۔ایمان سے خالی،تقویٰ سے عاری شخص پر اعتبارکیا ہی نہیں جا سکتا۔ تو جب پاکستان آرمی کا ماٹو ہی یہی ہے تو پھرکسی غیرمسلم کو پاکستانی فوج میں ملازمت کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔ 

محترم سراج الحق صاحب کی بات منطقی اعتبار سے ہے تو درست۔ایک ’’بے ایمان‘‘ فوجی پربھلا کون اعتبار کرے گا؟۔اس کے باوجوداگرپاک فوج جنرل ضیاء الحق کے عطاکردہ اس ماٹو’’ایمان،تقویٰ،جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کو اپنائے بیٹھی ہے تو پھر اسے اپنے قول وفعل کے اس تضاد کو ضرور دورکرنا چاہئے یا کم ازکم قوم کے سامنے وضاحت پیش کرنا چاہئے کہ وہ کیوں پاکستان کے ان ’’بے ایمان‘‘ افراد کوفوج میں بھرتی بھی کرتی ہے اور کلیدی عہدوں تک پہنچنے سے بھی نہیں روکتی۔ان میں احمدی بھی شامل ہیں،ہندو بھی،سکھ بھی اور مسیحی بھی۔پاک فوج میں شامل یہ سب آئینی اور غیرآئینی غیر مسلم (یا غیر مسلم قراردئے گئے) پاکستانی سراج الحق صاحب کی منطق کے مطابق ’’بے ایمان ‘‘ فوجی ہیں۔

کوئی کہہ سکتا ہے کہ سراج الحق صاحب نے انٹرویو میں لفظ ’ ’بے ایمان ‘ ‘ ہرگز استعمال نہیں کیا،بالکل درست لیکن موصوف نے پاکستان آرمی کے ان غیر مسلم فوجیوں کو صاحبِ ایمان ،مومن اور متقی تو بھی قرارنہیں دیا۔

واضح رہے کہ اس تحریر میں جہاں جہاں کسی کے لئے ’’بے ایمان‘‘کا لفظ استعمال کیا گیاہے وہ سراج الحق صاحب کی منطق کی رو سے ہے،راقم کا ہرگزکسی کے ایمان سے کوئی لینا دینا نہیں ۔

قارئین کرام سراج الحق صاحب کا انٹرویوسنتے ہی پہلا ’’بے ایمان ‘‘ چہرہ جو میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا وہ میجرسردارہرچرن سنگھ صاحب کا تھا ،جو پاک فوج کے پہلے ،اور فی الحال اکلوتے ،کمشنڈ سکھ افسرہیں۔سراج الحق صاحب کی منطق کے مطابق ایمان اور تقویٰ سے عاری ہیں لہٰذہ (خاکم بدہن)بے اعتبارے ہیں ،ان سے( خاکم بدہن بارِدگر) پاکستان کے دفاع کی توقع رکھنا فضول ہے کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ تو غیرمسلموں پہ فرض ہی نہیں ۔

اسی طرح جناب سراج الحق صاحب کی منطق سے روشناس ہو جانے کے بعد میری آنکھو ں کے سامنے آنے والادوسرا’’بے ایمان‘‘ چہرہ ایک ایسے نوجوان پاکستانی ہندو فوجی کاابھراجس نے گزشتہ برس سنہ 2017 میں پاکستان کی دھرتی کی رکھوالی کرتے ہوئے اپنی جان قربان کردی۔میری مراد 27 سالہ لانس نائک لال چندرابڑی سے ہے جس کا تعلق بدین کے ایک راجپوت ہندوگھرانے سے تھا۔
https://tribune.com.pk/story/1421648/homeland-love-hindu-soldier-died-defence-pakistan/

اور پھر اسی طرح سنہ 2013 میں نارتھ وزیرستان میں دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جان کی قربانی دینے والے پاکستانی ہندوفوجی اشوک کمارکا چہرہ بھی آنکھوں کے سامنے ابھر کر آیا جسے 2015 میں تمغہ شجاعت سے نوازاگیا۔

غالباً اشوک کمار کی فیملی ہی تھی جس نے حکومت پاکستان سے درخواست کی تھی کہ وطن کی خاطرجان قربان کرنے والے دیگرفوجیوں کی طرح اشوک کمار کو بھی ’’شہید‘‘قراردیا جائے کیونکہ ان کے عقیدے میں بھی وطن کی خاطر جان قربان کرنے والا’’شہید‘‘ ہی کہلاتا ہے ، لیکن اشوک کمارکی فیملی کی یہ درخواست مسترد کرکے اسے ’’آنجہانی‘‘کے علاوہ کچھ نہیں قراردیا گیا۔میرے نزدیک تو آنجہانی قرار دینا اس لئے بہتر ہے کہ جناب سراج الحق صاحب جس ایم ایم اے نامی سیاسی مذہبی گروہ کے سرکردہ ممبر ہیں ، اس کے سربراہ ’’حضرت مولانا‘‘ فضل الرحمٰن صاحب نے تو ’’شہید‘‘ کے رتبے کی یہ تعریف بیان فرمائی ہوئی ہے کہ ’’امریکہ کے حملے کی زد میں آکر مرنے والا کتا بھی شہید ہوتا ہے‘‘۔(https://www.express.pk/story/193140/)

اگرسراج الحق صاحب کے ہمجولی ،ایم ایم اے کے سربراہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شہادت کے رتبے بانٹنے کے ٹھیکیدار بن کرڈرون حملوں میں مرنے والے کتوں کو(خاکم بدہن)شہید قراردیتے پھرتے ہیں تو اشوک کمار کے گھر والے باز ہی رہیں اس قسم کی درخواستیں دینے سے۔لال چند اور اشوک کمار کی فیملیاں اتنا ہی غنیمت جانیں کہ پاک فوج کا ماٹو’’ایمان،تقویٰ،جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ ہونے اور اس کی رُو سے سراج الحق صاحب کی نظروں میں ’’بے ایمان‘‘ہونے کے باوجود انہیں پاک فوج میں بھرتی کرلیاگیا تھا۔ 

انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ سراج الحق صاحب اور مولانافضل الرحمٰن صاحب کے ایک اور ہم پلہ ہم مشرب ہم پیشہ ہم جولی جناب’’ حضرت مولانا‘‘عبدالعزیز صاحب (لال مسجد فیم) توپاک فوج میں شامل مسلمان فوجیوں کے جنازے پڑھنا بھی جائز نہیں سمجھتے۔ (روزنامہ دنیا 9فروری 2014 ۔کالم نذیرناجی) اس لئے خاطر جمع رکھیئے،یہاں تو لال مسجد کے’’مجاہدین‘‘ کے مقابلے میں مارے جانے والے مسلمان (لہٰذہ صاحبِ ایمان،متقی اور جہاد فی سبیل اللہ پہ ایمان رکھنے والے) بھی ’’شہید‘‘تسلیم نہیں کئے جارہے،ان کے جنازے پڑھنا بھی حرام ہیں،آپ تو پھر ہندو ہیں!۔

واعظ نہ پی سکو نہ کسی کو پلا سکو۔۔کیابات ہے تمہاری شرابِ طہورکی 

جناب سراج الحق صاحب جس جماعت کے موجودہ امیر ہیں اس کے بانی مبانی جناب ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے تو ایک ایسافتویٰ ارشاد فرمایا تھاجس نے کیا مسلم اور کیا غیر مسلم سب کے لئے پاک فوج میں بھرتی ہونا حرام قرار دے دیا تھا(روزنامہ پاکستان 25نومبر 1995۔کالم حامدمیر بعنوان ’’یہ بکواس کبھی بند نہیں ہوگی‘‘)۔۔اس فتوے کے بعد تو یہ بحث ہی سرے سے ختم ہو جانی چاہئے کہ پاک فوج کا ماٹو کیا ہے،اور اس ماٹو کے تحت کون اس میں بھرتی ہو سکتا ہے اور کون نہیں۔مودودی صاحب کے مبینہ بیک جنبش قلم فتوے نے توساری بحثوں ہی نہیں ، سارے ’’سیٹ اپ‘‘ پہ ہی جھاڑو پھیر کے رکھ دی ۔
اکیس سالہ احمدی سپاہی قاضی محمد شوکت غنی پسنی (بلوچستان)میں اورسولہ سترہ برس کامسیحی جوان ہارون جاوید مسیح تیراہ(خیبرپختونخوا)میں پاک فوج کے دو مختلف امن مشنوں میں حصہ لیتے ہوئے دہشت گردوں کانشانہ بننے والے والے بھی پاکستان کے ان محسنوں میں سے ہیں جن کے چہرے راقم کی نظروں میں گھوم رہے ہیں ۔یہ دونوں بھی سراج الحق صاحب کے نکتہ نظر اور منطق کی رو سے ایمان سے عاری، تقویٰ سے خالی فوجی تھے ،ان پر بھی پاک فوج کے دروازے بند ہونے چاہئے تھے۔

مسیحی برادری کے میجر جنرل جولین پیٹر اور میجرجنرل نوئل اسرائیل کھوکھرپتہ نہیں سراج الحقصاحب جیسے غیرت مند دینی رہنما کی عین آنکھوں تلے پاک فوج کے ان اعلیٰ عہدوں تک جا پہنچے؟؟۔
گروپ کیپٹن سیسل چوہدری(ستارہ جرأت،تمغہ جرأت)بھی مسیحی تھے،65کی جنگ میں بھارتی فضائیہ کے خلاف فضائی لڑائیوں میں اعلیٰ ترین کارکردگی دکھاکربین الاقوامی شہرت حاصل کی۔

سراج الحق صاحب کا انٹرویو سن کر ماضی کی طرف لوٹتے ہوئے میری نگاہوں نے پھر مزید جن چہروں کو دیکھا ان میں پاکستان کے دفاع میں جان قربان کرنے والے پہلے اور دمِ تحریر واحدپاکستانی جرنیل میجرجنرل افتخارخان جنجوعہ (دوبارہلال جرأت،ستارہ پاکستان،ستارہ قائداعظم) کا چہرہ تھا۔ان کے نام پر چھمب کانام افتخارآباد،کھاریاں میں ایک کالونی اور ایک کالج کا نام رکھاگیا۔ان کا تعلق جماعت احمدیہ سے تھا جو سرکاری اور آئینی کافرقرار دئے جانے کے باعث سراج الحق صاحب کی منطق کی رو سے پاک فوج کے ایک ’’بے ایما ن جرنیل‘‘ تھے ۔

یہ بھی عجیب ( حسنِ )اتفاق ہے کہ بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آتے وقت بھارتی فوجیوں کے سامنے جس پاکستانی جرنیل نے ہتھیار ڈالے تھے وہ احمدی نہ تھا۔محترم سراج الحق صاحب کا ہم عقیدہ اور ہم مسلک تھا۔احمدی ہوتا تو ساری دنیا میں شور مچا دیا جاتا(اور اب تک بلکہ رہتی دنیا تک یہ واویلاجاری رکھا جاتا)کہ دیکھو جنرل اے کے نیازی قادیانی تھااس لئے ہتھیار ڈال دیئے ۔ اگر ’’مسلمان‘‘ ہوتا تو مرجاتالیکن ہندو کے آگے ہتھیار کبھی نہ پھینکتا۔غالباً پہلے سے مطعون اور معتوب احمدیہ کمیونٹی کو قدرت مزیدستم بالائے ستم سے بچاناچاہتی تھی۔گو اب بھی پاکستان کو دولخت کرنے کا سہرا زبردستی  جماعت احمدیہ کے متھے ہی باندھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

پاک فوج کے احمدی افسران میں وطن کی خاطرجان کا نذرانہ پیش کرنے والوں میں میجر قاضی بشیراحمد،میجرمنیراحمد،سکوڈرن لیڈرخلیفہ منیرالدین،کیپٹن مجیب فقیراللہ بھی ان محب وطن محسنوں میں سے ہیں جو سراج الحق صاحب کے نکتہ نظرکے مطابق بے ایمان،ناقابل اعتبارتھے۔ سراج الحق صاحب جس جہاد فی سبیل اللہ پہ یقین رکھتے ہیں،یہ احمدی افسران اس قسم کے جہادپر یقین نہیں رکھتے تھے۔ 
بریگیڈئر(بعدہ میجرجنرل)عبدالعلی ملک(ہلال جرأت) کانام شاید آج کی پاکستانی نسل نے نہ سنا ہو۔ماہنامہ حکایت پاکستان نے ان کا تعارف کچھ یوں لکھا تھا :’’سیالکوٹ چونڈہ سیکٹرپر بھارت نے پورے آرمرڈ ڈویژن سے حملہ کیا تھا۔اس حملے کو ایک قادیانی بریگیڈئرنے صرف ایک ٹینک رجمنٹ اور دوانفنٹری پلٹنوں سے روکا تھا۔۔۔اس بریگیڈئر کانام عبدالعلی ملک ہے‘‘(حکایت ۔نومبر 1986 ص 114)۔

قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ مشہور اہلحدیث رسالہ’’الاعتصام‘‘کے مدیر صاحب نے سنہ پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ کو احادیث میں مروی ’’غزوہِ ہند‘‘کا مصداق قراردے دیا تھا۔اس ’’غزوہ‘‘ میں حصہ لینے والے اس قادیانی بریگیڈئر عبدالعلی کے علاوہ ان کے بھائی لیفٹیننٹ جنرل اخترحسین ملک (ہلال جرأت) بھی سراج الحق صاحب کی منطق کے مطابق پاک فوج کے ایک ’’ بے ایمان‘‘ جرنیل تھے۔
لگتا ہے احمدیوں کے ازلی ابدی مخالف آغاشورش کاشمیری صاحب کو جنرل اخترحسین ملک کے ’’بے ایمان‘‘ہونے کا علم نہ تھا ورنہ ان کی شان میں مندرجہ ذیل اشعار ہرگز شائع نہ فرماتے

دہلی کی سرزمیں نے پکاراہے ساتھیو۔۔اخترملک کاہاتھ بٹاتے ہوئے چلو
اس کے سوا جہاد کے معنی ہیں اور کیا۔۔اسلام کا وقاربڑھاتے ہوئے چلو
(
ہفت روزہ چٹان،لاہور۔ 13ستمبر1965صفحہ 6)

شورش کاشمیری صاحب پہ ہی بس نہیں ،الحاج مولاناعرفان رشدی صاحب داعی مجلس علمائے پاکستان نے قادیانی بریگیڈئرعبدالعلی کے بارہ میں کیا فرمایا تھا؟۔سنیے
’’
کررہا تھاغازیوں کی جب کماں عبدالعلی۔۔تھا صفوں میں مثل طوفاں رواں عبدالعلی‘‘ (معرکہ حق وباطل ۔ص73)

ایک ’’بے ایمان ‘‘جنرل اخترملک اور جہاد؟۔’’غیر مسلم‘‘تقویٰ سے عاری اور اسلام کا وقاربڑھانے والا؟۔’’بے ایمان ‘‘قادیانی جنرل عبدالعلی اور ’’غزوہ ہند‘‘ کے ’’غازیوں‘‘کاکماندار؟۔۔۔پاک فوج کا ماٹو۔۔۔؟۔کچھ بھی توپلے نہیں پڑرہا۔

یاتوآغاشورش اورمولانا عرفان کی عقلیں گھاس کھا گئی تھیں اور یا پھرمحترم سراج الحق صاحب۔۔۔۔۔

Comments are closed.