الیکشن 2018 کو ہوئے دو ہفتے بیت چکے ہیں ،تحریک انصاف نے پنجاب میں اپنی پارلیمانی برتری کا دعوی کیا ہے جسے کم و بیش سبھی سیاسی جماعتوں نے بالعموم اور ن لیگ نے بالخصوص تسلیم بھی کر لیا ہے لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود تحریک آج کے دن تک پنجاب کے وزیر اعلی کا فیصلہ نہیں کرسکی۔ پنجاب کے وزیر اعلی کا شمار پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں انتہائی اہم اور طاقتور عہدوں میں ہوتا ہے اسی بنا پر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے متعدد رہنما اس عہدے کے حصول کے لئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں ۔ 62 فی صد آبادی کے حامل پاکستان کے وفاق میں شامل سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلی کا عہدہ ویسے تو ہر سیاسی جماعت کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے لیکن اُ س سیاسی جماعت کے لئے تو اس کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے جو وفاقی حکومت بنانے جارہی ہو۔ پاکستان میں یہ خیال عام ہے کہ پنجاب میں حکومت بنائے بغیر وفاق میں حکومت بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
سنہ1970 کے انتخابات میں بھٹو کی زیر قیادت پیپلز پارٹی کو پنجاب اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پیپلز پارٹی کو اقتدار ملتے ہی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے تگ دو شروع ہوگئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے تین رہنما پنجاب پیپلزپارٹی کے صدر شیخ رشید اور بھٹو کے جانشین غلام مصطفے کھر اور مساوات کے ایڈیٹر حنیف رامے یہ عہدہ حاصل کرنے کے خواہش مندتھے۔
پیپلز پارٹی کے بانی رکن اسلم گورداسپوری اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ ’ہما را خیال تھا کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی جو بھی حکومت بنائے گی وہ اکثریت کی رائے سے بنائے گی اور اس معاملے میں کسی طرف داری اور دوست نوازی کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا ۔مگر اس مسئلے میں ہر بات ہماری توقع کے برعکس سننے میں آنے لگی۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے بارے میں کسی میرٹ اور ڈی میرٹ کی بجائے یہ کہا جانے لگا کہ پنجاب کا وزیر اعلی غلام مصطفے کھر ہوگا ۔ کھر کو پنجاب کا وزیر اعلی مقرر کرنے کی مہم چلانے والے انتہائی موقع پرست لوگ تھے۔ جن کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں تھا۔
دوسری طرف شیخ محمد رشید پنجاب کے تمام منتخب اراکین اسمبلی کو پنجاب پارٹی کے دفتر میں مدعو کیا جن میں حنیف رامے بھی شامل تھے۔ ان اراکین اسمبلی کو شیخ محمد رشید کے وزارت اعلی پر کوئی اعتراض نہیں تھا اور حنیف رامے کی ذات پر بھی کوئی اختلاف نہیں تھا ۔ حنیف رامے بہت دور اندیش انسان تھے انھوں نے جب دیکھا کہ پنجاب اسمبلی کے اراکین کی اکثریت شیخ رشید کے حق میں ہے تو انھوں نے وقتی طور پر خود امیدوار بننے کا فیصلہ موخر کرکے شیخ رشید اور مصطفے کھر کی اس لڑائی میں ’غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ مصطفے کھر نے جب دیکھا کہ اراکین اسمبلی میں ان کو حمایت حاصل نہیں ہے تو انھوں نے اسمبلی ممبرز کو یہ کہنا شروع کردیا کہ بھٹو مجھے پنجاب کا وزیر اعلی بنانا چاہتے ہیں جو لوگ میری مخالفت کریں گے انھیں پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔
بھٹو پنجاب میں جاری اس کھینچا تانی سے آگاہ تھے اور چاہتے تھے کہ صوبائی قیادت باہم دست و گریباں رہے تاکہ ان کی فیصلہ کن حیثیت بر قرار رہے۔ صوبوں کی حکومت کی تقسیم اور تشکیل کے معاملے میں بھٹو کے طریقے بادشاہوں سے ملتے جلتے تھے ۔ باد شاہ چونکہ مطلق العنان ہوتا ہے اس کو کسی گروہ یا دھڑے کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھنے کی کوئی مجبوری نہیں ہوتی مگر ایک جمہوری لیڈر اپنی پسند ناپسند میں آزا د نہیں ہوتا ۔ بھٹو تھے تو منتخب لیڈر لیکن ان کے طور طریقے باد شاہوں جیسے تھے۔ انھوں نے شیخ رشید اور مصطفے کھر دونوں کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لئے نظر انداز کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کا وزیر ا علیٰ نامز د کردیا جس کی کسی کو توقع نہیں تھی ۔ یہ شخصیت ملک معراج خالد کی تھی۔
بھٹو پنجاب کو اپنی طاقت کا سرچشمہ خیال کرتے تھے اور یہاں وہ کسی ایسی قیادت کے نہیں پنپنے دینا چاہتے تھے جو ان کے چیلنج بن سکے ۔ چنانچہ انھوں نے ملک معراج خالد کو وزیر اعلیٰ بنا کر ملک غلام مصطفے کھر کو پنجاب کا گورنر مقرر کردیا۔ ملک غلام مصطفے کھر کے سامنے ملک معراج خالد دبے دبے رہتے تھے اور صوبے کی قیادت ملک غلام مصطفے کھر کے ہاتھ میں تھی۔ ملک معراج خالد نے دو مئی 1972کو پنجاب کے وزیر اعلی کا حلف اٹھایا اور صرف ایک سال بعد ہی ان سے استعفی لے کر ملک غلام مصطفے کھر کو پنجاب کا وزیر اعلی بنادیا گیا ۔
ملک غلام مصطفے کھر کو وزیر اعلی بنے ابھی 123 دن ہوئے تھے کہ بھٹو نے انھیں وزارت اعلی کے عہدے سے ہٹا دیا ۔ مصطفے کھر پنجاب کی وزارت اعلی سے علیحدہ ہونے کے بعد بھٹو کے خلاف کھل کر میدان میں آگئے ۔ انھوں نے لاہور کے ایک حلقے سے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا ۔ پیپلز پارٹی نے اپنے کارکن شیر محمد بھٹی کو ان کے مقابل اپنا امیدوار بنایا ۔ بہت زیادہ کھینچا تانی اور دھاندلی کے الزامات کے شور میں شیر محمد بھٹی، کھر کو الیکشن میں شکست دے کر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے تھے۔
مصطفے کھر کے بعد پنجاب کی وزارت اعلی کا قرعہ فال حنیف رامے کے نام نکلا ۔ حنیف رامے دانشور اور مصور تھے ۔ خطاطی ان کی دلچسپی کا خصوصی میدان تھا ۔ وہ بھی بھٹو کے ساتھ زیادہ دیر تک نہ چل سکے اور صرف 122 بعد ہی وہ استعفٰی دینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ بعد ازاں رامے اور کھر دونوں پگارا کی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور رامے کو پگارا نے پارٹی کا چیف آرگنائزر بنادیا ۔ رامے کے بعد بھٹو ملتان کے پشتینی جاگیردار نواب صادق حسین قریشی جو گورنر پنجاب کے عہدے پر فائز تھے، کو چیف منسٹر پنجاب مقررکردیا ۔
نواب صادق حسین قریشی بھٹو کے نامزد کردہ وزرائے اعلی پنجاب میں سب سے زیادہ عرصہ کے لئے وزیر اعلی پنجاب رہے۔ جب 1977 میں انتخابات ہوئے تو نواب صادق حسین قریشی نے اپنے مخالف امیدوارملک عطاء اللہ کو اغوا کرادیا اورخود بلا مقابلہ رکن اسمبلی منتخب ہوگئے تھے۔ یہ وہ الیکشن تھے جنھیں قومی اتحاد نےدھاندلی زدہ قرار دیے کر مسترد کردیا تھا۔ اس الیکشن کے نتیجے میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ ایک بار پھر نواب صادق قریشی کو ملی اور وہ 5جولائی 1977 کو مارشل لا کے نفاذ تک اس عہدے پرفائزرہے۔
بھٹو نے ساڑھے چار سالہ اقتدار میں چار وزرائے اعلی پنجاب یکے بعد دیگرے تبدیل کئے ۔ پنجاب اسمبلی میں انھیں مکمل اکثریت حاصل تھی ۔عدم اعتماد کا دور دور تک کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود بھٹو وزیر اعلی کو بدل دیتے تھے اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ انھیں کسی پر اعتما دنہیں تھا اور وہ پنجاب کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلانے پر یقین رکھتے تھے ۔ یہ بھٹو کی اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی میں قیادت کا فقدان ہے۔
♦