لطیف بلوچ
ترقی سے مراد کسی معاشرے میں رہنے والوں کی معیار زندگی کی بہتری، خوشحالی ہوتی ہے۔ اگر انسان معاشی اور سماجی طور پر خوشحال زندگی بسر کررہا ہو، اُس کو بنیادی ضروریات زندگی میسر ہو، تعلیم، روزگار، صحت، اور دیگر گھریلو و معاشرتی ضروریات زندگی دستیاب ہوں لیکن بلوچستان میں ایسا ہرگز نہیں، بلوچستان سب سے امیر ترین خطہ ہونے کے باوجود آبادی کا نوے فیصد حصہ غربت میں زندگی گزار رہی ہے، بنیادی ضروریات زندگی عوام کو میسر نہیں بھوک، غربت، بیماریوں، بدحالی، ناخواندگی، جہالت، سیاسی و سماجی اور علمی پسماندگی کا شکار ہے۔ گوادر، سی پیک، ریکوڈک اور چمالانگ کے مالک انتہائی کسمپرسی میں زندگی گزارا رہے ہیں۔ سائنسی اور ذہنی ترقی کا تصور ہی نہیں ہے، کتابوں اور مطالعہ پر تک پابندی ہے، شاہراوں کی تعمیر اور چند بڑے بڑے بلڈنگ کھڑی کرنے کو ترقی اور خوشحالی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ترقی و خوشحالی کے لئے صرف روڈ اور بلڈنگ کارگر ثابت نہیں ہوتے بلکہ جن معاشروں نے ترقی کے منازل طے کئے اُنہوں نے تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، علم و ادب سمیت صنعتی انقلاب برپا کرکے نئی ایجادات کرکے، تاریخ انسانی کو نئے اور جدید خطوط پر استوار کیا، بدقسمتی سے پاکستان اپنے قبضہ گیری اور وسائل کے بے دریغ لوٹ مار کو ترقی کا نام دے کر اس خطے میں چین سمیت دیگر عالمی قوتوں کے لئے راہ ہموار کررہی ہے۔
سی پیک کا جب 2015 میں اعلان کیا گیا، تو منصوبے کی تکمیل کے لئے 46 ارب ڈالر مختص کئے گئے اور اب سی پیک کی لاگت 46 ارب ڈالر سے بڑھ کر 60 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے لیئے 900 ارب ڈالر مختص کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کا اعلان 2017 کو بیجنگ میں ایک سربراہی کانفرنس میں کیا گیا۔ جس کانفرنس میں دنیا بھر سے 29 ممالک کے سربراہاں مملکت 130 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی اور 70 عالمی تنظیموں کے نمائندے بھی موجود تھے، بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دیا جارہا ہے۔
اس منصوبے کی معاشی اہمیت کے ساتھ ساتھ تجارتی و دفاعی اہمیت کا حامل ہے، چین کی دنیا کے تجارتی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اس منصوبے کو انتہائی اہمیت حاصل ہے اور بیلٹ اینڈ روڈ’ منصوبے کے تحت قدیم ‘سلک روٹ’ یا شاہراہ ریشم کو دوبارہ قائم کرنا شامل ہے اور اس کے لیے بندرگاہوں، شاہراہوں اور ریل کے راستوں کے بنانے میں سرمایہ کاری کی جائے گی تاکہ چین کو ایشیا، یورپ، افریقہ اور اس سے آگے مزید منڈیوں سے جوڑا جا سکے، چین خطے پر اپنی اجارہ داری اور دفاعی، تجارتی اور سیاسی اثرو رسوخ قائم کرنے کے لیے بے تحاشہ سرمایہ استعمال کررہا ہے۔
گوادر بندرگاہ اور سی پیک کو لے کر خطے میں امریکہ اور چین کا تنازعہ ابھرا ہے، چین گوادر بندرگاہ کے ذریعے خطے میں اپنی اجارہ داری، معاشی و دفاعی مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے، جبکہ امریکہ اس کو خطے میں یکطرفہ اجارہ داری قائم کرنے سے روکنا چاہتا ہے تاکہ خطے پر امریکا کا سیاسی، اقتصادی اور دفاعی تسلط برقرار رہے۔
پاکستان بلوچستان کے جغرافیائی اہمیت خصوصاً ساحل بلوچ کی افادیت و اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے، پنجابی فوج چین سمیت دنیا کے دیگر طاقتور قوتوں سے بلوچ سرزمین کے اہمیت و افادیت کے پیش نظر اقتصادی، سیاسی، معاشی، دفاعی اعتبار سے مفادات حاصل کررہی ہے، بلوچستان کے وسائل سے پنجاب کے معاشی مفادات کو پورا کیا جارہا ہے، بلوچ سرزمین سے نکلنے والی قدرتی گیس پاکستان کے معاشی ضرورتوں کو سہارا دے رہی ہے اور پاکستان کی معیشت کا بہت بڑا انحصار بلوچستان کے وسائل پر ہے۔
گوادر پورٹ، ریکوڈک، سیندک، چمالانگ، سوئی گیس، سمیت دیگر وسائل پاکستان کے ڈوبتی ہوئی معاشی ناؤ کو ڈوبنے سے بچائے رکھے ہوئے ہیں بلکہ پاکستان کے مردہ وجود کو آکسیجن فراہم کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان ہوائی انٹرنیشنل روٹ ہے، اس روٹ سے پاکستان کو اربوں ڈالر سالانہ ٹیکس حاصل ہورہا ہے اور ماربل صعنت بلوچستان کے وجہ سے چل رہی ہے اور کراچی میں سینکڑوں ماربل فیکٹریاں اور ہزاروں انسانوں کی روزگار کا ذریعہ بھی بلوچستان کے پتھر ہیں، کوئلہ کی صنعت کا پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے دیگر بیش بہا قدرتی وسائل پاکستان کے معیشت کا اہم سہارا ہے، اس وقت پاکستان بلوچ وسائل کو بےدردی سے لوٹ رہا ہے، قدرتی دولت سے مالامال بلوچستان کے عوام بھوک، افلاس، غربت، بے روزگاری، اور ناخواندگی کے شکار ہیں۔
سی پیک، چین، پاکستان اقتصادی راہداری کا بغور جائزہ لیا جائے اس پورے منصوبے میں بلوچ قوم کے لئے کوئی ایسا منصوبہ نہیں کہ جس سے بلوچستان میں معاشی خوشحالی آئے یا روزگار کے مواقع میسر ہوں، یونیورسٹی، سائنس و ٹیکنالوجی، میرین سائنسز کے جدید ادارے قائم کئے گئے ہوں، ایگرکلچر، فشنگ و فارمنگ کے شعبوں پر کوئی توجہ دی گئی ہو ایسا بلکل نہیں ہے بلکہ اس راہداری کے آڑ میں بلوچوں کو سہانے سپنے دکھا کر اُنکے وسائل اور سرزمین کو ہتھیانے کی سازش تیار کی گئی ہے۔
سی پیک کی اہمیت و افادیت اور کامیابی کا دارومدار بلوچستان خصوصاً گوادر سے وابستہ ہے لیکن اس جدید دور میں گوادر کے رہائشی بھوک و افلاس کا شکار ہیں، ساحل پر آباد ہونے کے باوجود پانی کے بوند بوند کو ترستے ہیں، سی پیک کا مرکز بلوچستان گوادر ہے لیکن اس کے ثمرات سے پنجاب مستفید ہورہا ہے، وہاں بڑے بڑے پراجیکٹس، توانائی، زراعت، صحت، تجارت، صنعت، ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی جاری ہے۔ اس کے برعکس بلوچستان سے ایک سڑک گزر رہی ہے، جو چین کو گوادر بندرگاہ اور پنجاب سے ملائی گئی اس سڑک کے راہ میں آنے والی آبادیوں کو وہاں سے ہٹانے کے لئے بلوچستان میں بدترین فوجی آپریشن جاری ہے۔ کئی گاوں اور آبادیوں کو ملیامیٹ کیا گیا ہے اور مقامی لوگوں کو اُنکے آبائی علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے۔ ان علاقوں کے لوگ سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آئی ڈی پیز بن کر انتہائی کسمپرسی میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، ترقی کے نام پر بلوچستان میں تباہی و بربادی کا آغاز کیا گیا۔
گوادر سمیت دیگر علاقوں میں چینی اور پنجابی باشندوں کے آباد کاری سے بلوچستان کی ڈیموگرافی مکمل تبدیل ہوجائے گی بلوچ اقلیت میں تبدیل ہوکر رہ جائیں گے، بڑے پیمانے پر آباد کاری سے سنگین معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل جنم لیں گے، بلوچ شناخت انسانی سیلاب و یلغار میں گم ہوکر رہ جائے گی اور مستقبل میں بلوچ قوم کا شناخت، ثقافت، زبان اور تہذیب مکمل ختم ہوجائے گی، چین پاکستان کیساتھ ملکر اپنی سامراجیت کو دوام بخش رہی ہے۔ اپنے ملکی حدود اور اختیارات سے غیر قانونی تجاویز کرکے بلوچستان کے جغرافیائی، سیاسی اور اقتصادی معاملات میں مداخلت کررہی ہے اور عالمی قوانین کو روند کر بلوچستان کے حقیقی باشندوں کو نظر انداز کرکے بلوچ سرزمین کو نوآبادیات میں تبدیل کرکے اپنے سامراجیت کو وسعت دے رہی ہے اور پنجابی قبضہ گیر کیساتھ ملکر بلوچ سرزمین پر اپنی نوآبادیاں قائم کرکے بلوچستان پر قبضہ جمانے، وسائل کی لوٹ مار سمیت وسطی ایشیاء ممالک سے زمینی رابطے بحال کرنے کے ساتھ ان کی وسائل پر اپنی للچائی ہوئی نظریں مرکوز کر رکھی ہے۔
بلوچ قوم سی پیک کے متعلق شدید خدشات وتحفظات رکھتی ہے، وہ اس سامراجی منصوبے کو بلوچ سرزمین پر چین کی جانب سے نوآبادیاتی تسلط و قبضے سے تعبیر کرتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چین پاکستان سے گٹھ و جوڑ کرکے بلوچ ساحل پر قبضہ کرکے اس خطے میں اپنی معاشی و سیاسی اجارہ داری کو مضبوط بنانا چاہتی ہے، اس کے علاوہ چین اپنی دفاعی پوزیشن کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لیئے بحرعرب میں بحری اڈہ بھی بنارہی ہے، جو خطے میں بے چینی، کشیدگی اور تباہی کی باعث بنے گی، سی پیک بلوچ قوم کے لئے ایک خونخوار سامراجی اژدھا ہے، جو بلوچ سرزمین و نسلوں کو ہڑپ لےگی۔
♦