عامر گمریانی
۔’’ایسے متعصب، یک رخے اور گھٹیا قسم کے شخص سے کیا ہمدردی کی جا سکتی ہےمجھے تو شروع ہی سے یہ زہر لگتا تھا، خبط عظمت میں مبتلا، ، خودساختہ نرگسیت میں مبتلا، لیکن تب صحافتی سٹینڈرڈ کے حساب سے ٹھیک تھا۔ عمران دشمنی نے باولا بنا دیا‘‘۔
میں نہایت بوجھل دل کے ساتھ مندرجہ بالا کمنٹس نقل کر رہا ہوں۔ یہ ایک صحافی کا اپنے ہم عصر رفیقِ کار کے متعلق تبصرہ ہے۔ طلعت حسین صاحب کی دو منٹ کی تقریر ہمارے دوست وسی بابا نے اپنی وال پر شئر کرتے ہوئے اس صاحب سے ہمدردی کے دو بول بولنے کے متعلق پوچھا۔ جواب میں زہر میں بجھے ہوئے یہ لفظ ملے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ طلعت صاحب کی تقریر اظہار رائے کے متعلق تھی اور موجودہ دور میں میڈیا کو جس سٹرکچرل سنسرشپ کا سامنا ہے اس کی مخالفت اور سدِباب کا عزم ظاہر کر رہی تھی۔ اگر کسی کو طلعت صاحب سے اختلاف ہے اور واقعی سمجھتے ہیں کہ میڈیا کسی قسم کی پابندی کے زد میں نہیں ہے تو بھی اتنا چیں بچیں ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ آرام اور نہایت شائستگی کے ساتھ بات کی جاسکتی تھی۔ اس لفظی تشدد کی کیا ضرورت تھی؟
یہ بے سر و پا انتہائی غیر مناسب تبصرہ جس میں لفظ کی حرمت پامالی کی دہائی دے رہی ہے، بہرحال ہمارے اس دور کے سب سے بڑے مسئلے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ نئے پاکستان میں اگر ایسے ہی سفاکی کے ساتھ دوسروں کی عزت تار تار کی جائے گی تو یقین کیجئے ناکامی نئے پاکستان کے دعویداروں کا مقدر ہے جس کا خمیازہ پوری قوم بھگتے گی۔
لفظوں کے نشتر برسانے والے اس صحافی سے ہمیں عرصہ دراز سے حسن ظن رہا ہے۔ ان کے یکطرفہ تجزیے بھی اس حسنِ ظن کو مکمل طور پر ختم نہ کر سکی لیکن آج تو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا ہے۔ ایسے بھی ہوسکتے ہیں، عرصہ دراز سے قلم کے ذریعے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والے؟ مجھے ایک لمحے کو لگا جیسے کسی نے ان کا اکاونٹ ہیک کیا ہے۔
پتہ نہیں تاریخ عمران خان کو کس طرح یاد رکھے گی ایک بات البتہ طے ہے کہ نئی نسل کو تہذیب سے عاری کرنے کا سہرا عمران خان کے سر ہے۔ خان صاحب کے خلاف دو لفظ لکھنے کی جسارت کریں اور ایک طوفان بد تمیزی آپ کا حشر کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ آنکھوں میں خون اتر آتا ہے، منہ سے انگارے ٹپکنے لگتے ہیں۔ ہر دم آمادۂ جنگ ایک لشکر آپ کی طرف بڑھتا ہے، آپ کی سات پشتوں کو سبق سکھانے کے لئے بے چین و بیکرار۔
آج درد حد سے سوا اس لئے ہوا کہ یہ الفاظ ادا کرنے والے کوئی عام لکھاری نہیں، عرصہ دراز سے صحافت سے وابستہ ہیں، سوشل میڈیا پر کافی فین فالونگ رکھتے ہیں۔ اچھی خاصی شہرت کے مالک ہیں۔ اسلام پسند کہلاتے ہیں اور تصوف سے شعف رکھنے کے دعویدار ہیں۔ ان کا یہ حال ہے تو آپ تصور کریں کہ فیس بک پر دانشوری فرماتے نوجوانوں کا کیا حال ہوگا؟ اور کوئی تبدیلی آئے نہ آئے،
تہذیب کی حد تک تبدیلی آچُکی ہے۔ ہم اپنے اقدار ہر گزرتے لمحے کے ساتھ گنواتے جارہے ہیں۔ کبھی کبھار تو لگتا ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت یہ طوفانِ بلا خیز اٹھایا گیا ہے، گالی کے کلچر کو اتنا فروغ دو کہ ہر وہ آواز جو آپ کی مخالفت میں اٹھے، خود بخود خاموش ہو جائے۔ جھوٹ اس کثرت سے بولو کہ سچ بن جائے۔
مکرر عرض ہے کہ عمران خان کوئی مامور من اللہ نہیں، ان کے حق میں آسمان سے کوئی بشارت نہیں اتری۔ گوشت پوست کے ایک عام انسان ہیں جس کی زندگی بتاتی ہے کہ ان سے غلطی کا احتمال ہو سکتا ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی۔ اس لئے اگر کچھ لوگ ان کے متعلق اندیشے پالتے ہیں تو کوئی ایسی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب نہیں کرتے۔ عمران خان کی سیاست یا اس ملک کے ادارے کوئی شجرِ ممنوعہ نہیں کہ ان کے خلاف بات نہیں کی جاسکتی۔ سوال پر پابندی اس قوم پر زندگی کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے جس کی مزاحمت جہاد ہے اور کچھ سر پھرے اس پہاڑ کو سر کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔
کوئی مہذب انسان طلعت صاحب کی وال پر تبدیلی کے پر ستاروں کے تبصرے پڑھ نہیں سکتا۔ کون سی گالی ہے جو ان کو نہیں دی گئی؟ طلعت صاحب کی ثابت قدمی اور اپنے موقف کے پرچار پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنا واقعی قابلِ رشک ہے۔ وہ بدتہذیبی اور بدتمیزی کے ہتھیاروں سے راستہ روکنے کی کوشش میں لگے عمران خان کے پروانوں کی سوچ سے کہیں زیادہ مضبوط اعصاب کے مالک ثابت ہوئے ہیں۔
طیاروں میں نئے پاکستان کے لئے شکار ڈھونڈنے والے اگر طلعت صاحب پر بِکنے کے الزامات لگاتے ہیں تو وہ یقین کرلیں کوئی ذی شعور ان کا یقین نہیں کرے گا۔ وہی مشہور زمانہ قول کہ آپ کچھ دیر کے لئے کچھ لوگوں کو بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لئے سب لوگوں کو ہر گز نہیں۔
طلعت صاحب کو اللہ لمبی زندگی دے، مجھے ان سے کوئی اتنی ذاتی شناسائی یا خاص تعلق نہیں لیکن ان کو برسوں سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں۔ طلعت صاحب کسی طور خطا سے پاک نہیں اور ان کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ ایک بات کی مگر دل گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص دانستہ طور پر غلط کو درست اور درست کو غلط نہیں کہے گا۔
میرا کئی بار ان سے رابطہ ہوا ہے۔ ہمیشہ کمال محبت سے پیش آئے۔ ایک دفعہ ایک ذاتی مسئلے کے سلسلے میں ان سے ملنے اسلام آباد گیا۔نہایت خوشدلی سے ملے۔ایک گھنٹہ اپنے پاس بٹھائے رکھا۔ چائے پلائی۔ بات اتنی توجہ سے سنی جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ ہمیں تو یہ آدمی سچ پوچھئے ہیرا لگا۔ اللہ انہیں استقامت عطا کرے جتنے زہر میں بجھے ہوئے لفظ ان کے خلاف کہے گئے، کسی اور کے حصے میں نہ آئے ہوں گے۔ اس کے باوجود ان کا ڈٹے رہنا حیران کن ہے۔ اپنے نام کی لاج رکھی ہے انہوں نے، حُسین نام ہر کسی پر کہاں جچتا ہے۔ ان جیسے لوگ ہمارا اثاثہ ہیں، اللہ نئے پاکستان میں ان کی حفاظت کرے۔
♦