شمالی افغان صوبے میں چیک پوسٹوں پر طالبان عسکریت پسندوں کے حملے میں تین درجن سے زائد ہلاکتیں بتائی گئی ہیں۔ حالیہ ایام میں طالبان نے افغان پولیس اور فوج پر اپنے حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے۔
طالبان نے شمالی صوبے بغلان کی ایسی چیک پوسٹوں پر زوردار حملے کیے جو ایک دوسرے کے قریب واقع ہیں۔ ان حملوں میں چالیس افغان فوجی اور پولیس اہلکار مارے گئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ طالبان نے ایک فوجی مرکز اور بغلان کے مرکزی علاقے میں واقع تین پولیس چوکیوں کو نشانہ بنایا۔ طالبان نے یہ حملے بدھ کی علی الصبح میں کیے۔ حکام نے چالیس ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق پہاڑی کے پاس ایک فوجی گاڑی الٹی پڑی ہے جس میں پانچ لاشیں پھنسی ہوئی تھیں۔ یہ سب افغان فوجی تھے۔ شہر کی دوسری جگہوں پر بھی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ ان کی فوجی وردیاں دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ فوجی تھے لیکن قریب سے جانچ کرنے پر خاص طور پر ان کے لمبے بال اور داڑھیاں دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ وہ دراصل طالبان جنگجو تھے۔ انھوں نے شہر میں داخل ہونے کے لیے فوجی وردیوں کا استعمال کیا۔
دوسری جانب طالبان کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان بھی سامنے آیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس بیان میں کہا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں بہت زیادہ ہیں جب کہ صرف اکتیس فوجیوں کو حملے میں ہلاک کیا گیا ہے۔
بغلان صوبے کی کونسل کے دو اراکین حیات اللہ وفا اور اسد اللہ شہباز نے طالبان کے اِن شدید حملوں اور ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ اسی صوبے کی صوبائی کونسل کے سربراہ محمد صفدر محسنی نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ عسکریت پسندوں نے حملے کے بعد چیک پوسٹوں کو آگ بھی لگا دی۔
غزنی کو حال ہی میں اسلامی تہذیب کا دارالحکومت قرار دیا گیا تھا۔ انھوں نے ہوائی اڈے کے قریب اس اعزاز کی یادگار بنائی تھی۔ اسے بھی نذرِ آتش کر دیا گیا۔
ایک افغان رکن پارلیمنٹ دلاور ایماق کا کہنا ہے کہ طالبان نے جن چیک پوسٹوں پر حملے کیے ہیں، اُن پر موجود پولیس اور ملیشیا کے مسلح اہلکار کا تعلق مقامی لوگوں سے تھا اور انہیں بھرتی کر کے ایسی چیک پوسٹوں پر متعین کیا گیا تھا۔ ایماق کے مطابق ایسے اہلکاروں کو افغان وزارت داخلہ تنخواہیں دیتی ہے۔
دوسری جانب مشرقی افغان شہر غزنی میں بدھ پندرہ اگست کو افغان فوج کی موجودگی میں بعض بازاروں میں چند دوکانیں کھولی گئی ہیں۔ اس شہر پر طالبان نے گزشتہ جمعرات نو اگست کی نصف شب منظم انداز میں حملے کرتے ہوئے شہر کے کئی حصوں پر کنٹرول بھی حاصل کر لیا تھا۔ چار دنوں کی لڑائی کے بعد عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے لیے امریکی اور نیٹو کے جنگی طیاروں نے بھی افغان فوج کے زمینی حملوں میں مدد کی تھی۔
اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والے کچھ جنگجووں کی لاشیں فاٹا میں بھی آئیں ہیں جس پر عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک نے ٹویٹ کیا ہے کہ حکومت پاکستان کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ کون لوگ ہیں۔