جبری طور پر لاپتہ بلوچ افراد کی بازیابی کیلئے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3155 دن مکمل ہوگئے جبکہ تربت سے بی ایس او آزاد کے ایک وفد نے لاپتہ افراد و شہدا کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کا دورہ کیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیسے عید منائیں، عید خوشیوں اور مسرتوں کا تہوار ہے۔ اس روز ہزاروں میل دور رہنے والے افراد اپنے پیاروں سے ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس دن کی حقیقی خوشی بچھڑوں کے ملنے اور خاندان کے تمام افراد کے ایک جگہ اکھٹے ہونے اور ملکر تہوار منانے سے ملتی ہے لیکن گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے بلوچ قوم کی عید کی خوشیاں ماند پڑ گئی ہیں – اب یہ تہوار خوشیوں کے برعکس اپنے پیاروں کے بچھڑنے کے ناقابل بیان ذہنی، روحانی کرب، غم اور بے قراری کو بڑھاتا ہے– اس روز پیاروں کی جدائی کے زخم مزید تازہ ہوجاتے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا کیمپ ہر سال کی طرح عید کے دن بارہ بجے سے شام تک قائم رہے گا اور ریلی یا مظاہرے کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا دیکھتے ہیں کہ چھ نکات پیش کرنے والوں میں سے کتنے لوگ ہمارے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ صرف اخباروں اور سوشل میڈیا تک محدود ہوکر لاپتہ افراد کے لواحقین کو بیوقوف نہیں بنایا جائے، کچھ عملی کام بھی کرکے دکھائیں۔
بلوچ دانشور کے بی فراق لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے پاکستان کی تاریخ میں بنگالی قوم کی اکثریت کو اقلیت سے چھٹکارا پاتے دیکھا اور تاریخ میں اپنی نوعیت کی ایک انوکھی مثال قائم ہوئی ۔لیکن پاکستانی معاشرے میں عبرتناک معاشرتی سکوت دیکھئے کہ بلوچستان پر ابھی تک اُسی طرح کی مجرمانہ خاموشی جاری ہے۔
کہتے ہیں کہ لاہور کی محض ایک گلی میں ناشرین کی اتنی کتابوں کی دکانیں ہیں کہ پورے بلوچستان میں اتنے بک ہاؤس نہیں اور دانشوروں کی دانائی کاتذکرہ تو برعظیم کی علمی و ادبی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہےلیکن یہ سب ہوتے ہوئے بھی نہ بنگال کی بپتا جھیل پائے اور نہ ہی بلوچستان پر جاری ریاستی تشدد کی بابت دوچار سطریں لکھنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اتنی پڑھت لکھت کے باوجود بھی اتنی بے خبری کا عالم ہے یا مقتدرہ کی پرچم کشائی میں جُٹے ہوئے ہیں اور ان کی لکھت میں بلوچستان میں جاری انسانی آزار کا پرتو نہیں ۔
چونکہ مرورِ زمانہ یہ تصور بھی لیکھک کا وطیرہ ہےکہ غلطی سے سیاست کے بارےمیں کوئی لفظ بھی اس بیچ قلمزد نہ ہو اور بولنا تو ویسےبھی ان کے کردار میں شامل نہیں۔ حالانکہ بلوچستان کو اپنی سیاسی باخبری کی مار پڑ رہی ہے۔ اور ریاستی لبرل دانشور اور ادیب مجرمانہ سیاسی خاموشی میں مست ہیں۔ کیونکہ وہ بلوچستان کو بھی ہدایت نامہ کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
جب قومی اسمبلی میں بلوچستان کے مسائل کو لیے بلوچستان کا منتخب نمائندہ قیادت تقریر کررہا تھا تو اس بیچ نو منتخب وزیراعظم اٹھ کے چل دیے۔شاید اس لیے کہ ان کو انتقالِ اقتدار کے وقت یہ بھی کہہ دیا گیا ہو کہ یہ معاملہ آپ کے ڈومین میں نہیں آتا۔
♦
One Comment