افغانستان،ایران، ساتھ کشیدگی، امریکا کے ساتھ خراب تعلقات اور بھارت کے ساتھ بھی سفارتی مراسم عدم استحکام کا شکار۔ پاکستان میں عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پارلیمنٹ کی بجائے جی ایچ کیو میں تیار ہوتی ہے۔ مبصرین کے مطابق ’پاکستان دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کی وجہ سے عالمی سطح پر تنہا کھڑا ہے‘۔پاکستان کے اپنے ہمسایہ ممالک، افغانستان، بھارت اور ایران کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ پاکستان کی خوشحالی کی کنجی اس کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دو طرف تجارتی تعلقات میں پنہاں ہے۔ کیا وزیراعظم عمران خان اور پارلیمنٹ، جی ایچ کیو کی تیار کردہ پالیسی میں کوئی تبدیلی لا سکیں گے؟
پاکستان کے بائیسویں وزیراعظم عمران خان نےگزشتہ ماہ انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی پہلی تقریر میں اس بات کا برملا اظہار کیا تھا کہ ’’پاکستان کو خارجی سطح پر متعدد چیلنجز کا سامنا ہے اور اگر کسی ملک کو امن و استحکام کی ضرورت ہے تو وہ پاکستان ہے‘‘۔
پہلی مرتبہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے والے سابق کرکٹر عمران خان کے لیے ایک واضح خارجہ پالیسی تشکیل دینا آسان نہ ہوگا کیونکہ پاکستان پر خطے میں ’انتشار پھیلانے والے شدت پسند عناصر کی سرپرستی‘ کا الزام عائد کیا جاتا ہے لیکن اسلام آباد حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
رواں برس کے آغاز میں امریکی صدر ٹرمپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو ’دوغلا پن‘ قرار دیتے ہوئے اس ملک کی فوجی امداد روکنے کا اعلان کیا تھا۔ دوسری جانب ماضی میں وزیراعظم عمران خان امریکا کی قیادت میں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں پاکستان کی شرکت کو ’’امداد کے بدلے میں اپنی عوام کے خلاف جنگ‘‘ کے مترادف قرار دیتے رہے ہیں۔ تاہم وزارت عظمٰی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنے سخت موقف میں نرمی اختیار کرتے ہوئے ’متوازن تعلقات‘ کی خواہش کا اظہار کیا۔
ماضی میں سابق کرکٹ سٹار طالبان سے مذاکرات کے بھی حمایتی رہے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ ’ولسن سینٹر‘ کی تجزیہ کار ہما یوسف سمجھتی ہیں کہ عمران خان کے موقف کو واشنگٹن حکومت سے زیادہ کابل حکومت کا اعتماد حاصل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ عمران خان کو ایک نئے چہرے کے ساتھ ساتھ قابل اعتماد حکمران سمجھا جا رہا ہے۔
ہما یوسف کے مطابق امریکا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے بیجنگ اور اسلام آباد میں قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے چین کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
پاک چین تعلقات کے ماہر انڈریو سمال سمجھتے ہیں کہ ’پاک چین اقتصادی راہداری‘ منصوبے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔
بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات وزیراعظم عمران خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ اسی موضوع کو پاکستان میں جمہوری اور عسکری قیادت کے درمیان عدم اعتماد کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے موقف کے نتیجے میں ان کو ملکی عسکری قیادت کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران عمران خان نواز شریف پر اسی تناظر میں شدید تنقید بھی کرتے رہے ہیں لیکن انہوں نے وزیراعظم بنتے ہی پڑوسی ملک کے ساتھ مثبت تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے بروز منگل ایک ٹوئیٹ میں پیغام دیا کہ ’پاکستان اور بھارت کشمیر تنازعے کو حل اور آپس میں تجارت شروع کرنی چاہیے۔‘‘۔
دوسری جانب سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کی خارجہ پالیسی کا کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ عسکری قیادت کے لیے قابل قبول ہے یا نہیں؟ تاہم پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس خیال کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اب ’’پاکستان کی خارجہ پالیسی صرف دفتر خارجہ میں طے کی جائے گی ‘‘۔لیکن ساتھ ہی دوسری سانس میں یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے لیے ادارے(سیکیورٹی ) اہم ہیں اور ہم ان کا ان پٹ بھی لیں گے اور تمام دنیا کی پریکٹس ہے۔
DW/News Desk