سماجی اقدار اور معاشی نظام

فرحت قاضی

اگر ایک نائی، دھوبی یا درزی کا بیٹا پڑھ لکھ کر پولیس یا فوجی آفیسر بن جاتا ہے یا بینک کا بابو یا پھر کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوجاتا ہے تو پھر اسے اپنا ماضی ساحر لدھیانوی کی مانند اپنی ذلتوں کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔لیکن اگر ایک ایسا شخص جس کے پاس ماضی میں دولت، جائیداد اور بے حساب اختیارات تھے اور اب وہ ان سے محروم ہے تو اپنے ماضی کو سنہرا کہہ کر یاد کرے گا ہمارا جاگیردار سرمایہ دارانہ نظام کی چمک دمک میں اپنے اختیارات کھوتا جارہا ہے لہٰذا اس نے ماضی کے احیاء کی تگ ودوشروع کی ہوئی ہے اورو ہ یہ جنگ ناخواندہ عوام کے ذریعہ مذہب کے نام پر لڑنا چاہتا ہے۔

اگرچہ سماجی، معاشی اور اخلاقی اقدار ایک معاشرے، ملک اور ریاست کے نظام کی پیداوار اور اس سے بندھے ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تاحال یہ نظریہ موجود ہے کہ اقدار دائمی ہوتی ہیں کچھ پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے اور بعض زیادہ اہم نہیں ہوتے ہیں دائمی اقدار کا تصور پیش کرنے والا مکتبہ فکر عوام کو وقتاً فوقتاً یہ یاد دلاتا رہتا ہے کہ ہمارے معاشرتی بگاڑ کا سبب ان اقدار سے دوری ہے اور جس کے احیاء سے ہم ایک مرتبہ پھر ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔

اس مکتبہ فکر کی ماضی پر نظریں ہوتی ہیں اور عوام کو ماضی پرست بنانے کے لئے تاریخ سے من پسندواقعات چن چن کر دلیل کے طور پر پیش کرتاہے اور ایسا کرتے وقت وہ دیگر تمام حالات بھلا دیتا ہے بلکہ تاریک پہلوؤں کو تو سرے سے ہی نظر انداز کردیتاہے علاوہ ازیں وہ یہ سب کچھ زیادہ تر انسانی اخلاق کے نقطہ نظر سے پیش کرتا ہے چنانچہ وہ کہتا ہے کہ اس زمانہ میں ایک انسان ہم جنسوں کے دکھ درد کو محسوس کرتا تھا لیکن اب تو ایک انسان تکلیف سے کرارہا ہو تو دوسرا اسے ہسپتال پہنچانے کی زحمت بھی نہیں کرتاہے یا ایک بادشاہ کو اپنی رعایا کی اتنی زیادہ فکر رہتی تھی کہ راتوں کو نیند بھی نہیں کرتا تھا چنانچہ ان مثالوں سے وہ یہ باور کراناچاہتاہے کہ پرانی اقدار درست اور موجودہ زمانہ غلط اور برا ہے اور یہی احساس وہ عوام میں بھی پیدا کرنا چاہتا ہے۔

اسے ماضی پرستی کہا جاتا ہے یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک فرد خاندان میں معاشی یا تعلیمی یا سماجی مرتبے میں کم تر رہ جاتا ہے یا ایک ملک سماجی، سیاسی اورمعاشی سمیت دیگر شعبہ جات میں اپنے ہمسایہ یا دیگر ممالک سے ترقی کی دوڑمیں پیچھے رہ جاتا ہے ہمارے معاشرے میںیہ سوچ اور نظریہ پہلے تو دیہات تک محدود تھا مگر اب ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس نہج پر سوچنے لگا ہے جس کا بڑا سبب ہمارا تعلیمی نظام ہے جو کہ طالب علموں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے سے قاصر اور دوسرا ہر چیز کو اخلاقی نقطہ نظر سے دیکھنے کی عادت ڈالتا ہے۔

ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر قبائلی اور نیم جاگیردارانہ یا جاگیر دارانہ ہے اگرچہ بڑے شہروں میں سرمایہ داری کے آثار بھی نظر آتے ہیں لیکن جاگیردارانہ خیالات حاوی ہیں جن کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ملک اور علاقہ میں کسی تبدیلی کے خواہاں نہیں ہوتے ہیں بلکہ ایسے معاشروں میں ان تصورات کی پرورش اور پرداخت ہوتی ہے جو اس نظام کے استحکام کا باعث ہوں کیونکہ ملک کے اعلیٰ عہدوں اور پارلیمنٹ پر بھی جاگیرداروں کا قبضہ ہے اور تعلیم سمیت دیگرپالیسیاں بھی یہی لوگ بناتے ہیں لہٰذا انہوں نے ان جاگیردارانہ اقدار پر نظریہ پاکستان اور مذہب کی تہہ چڑھا رکھی ہے۔

چونکہ ماضی پرستی اور پرانے نظریات جاگیرداری نظام کو استحکام بخشتے ہیں لہٰذا فرسودہ جاگیردارانہ اقدار کو دائمی کہہ کر بھی ان کو برقرار اور ان کے احیاء کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں جبکہ ماضی کا ذکر ساحرانہ الفاظ میں بیان کرتے وقت اس دور کے سماجی اور دیگر حالات یا تاریک پہلوؤں اور موجودہ سائنسی ترقی، سہولیات اور مثبت پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

جب ہم پاس پڑوس ممالک کی ترقی کا موازنہ اپنے معاشرے سے کرتے ہیں تو ان کی ترقی کی وجوہات جاننے کی بجائے اپنے ماضی کی جانب لوٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے سنہرے دور میں مختلف اقوام اور ممالک سے لوگ حصول علم اور تہذیب سیکھنے کے لئے آیا کرتے تھے ۔

اس طرح ہم اپنے ماضی کو سنہرا دور کہہ کر یاد کرتے ہیں جبکہ یورپ اور مغرب کے ترقی یافتہ ممالک اپنے ماضی کو تاریک ادوار کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

کیا اس کاسبب یہ ہے کہ ہمارا شاندار اور ان کا تاریک تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ ماضی سے کہیں دور اور آگے نکل گئے ہیں ان میں جمہوریت،عوامی حقوق، روزگار اور خوشحالی ہے ریاست نے ہر شہری کی ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں جبکہ ماضی میں یہ صورت حال نہیں تھی ان کی مالی،معاشی، سماجی ،ثقافتی اور تہذیبی حالت پہلے سے بہتر ہوئی ہے لہٰذا وہ اپنے ماضی کو تاریک کہنے میں حق بجانب ہیں۔
ہم اس وقت جہالت، پسماندگی اور مہنگائی سے دوچار اور جمہوریت اور انسانی حقوق سے کوسوں دور ہیں ایسی صورت میں اگر ہمیں اپنا ماضی سنہرالگتا ہے تو یہ ہماے ملکی نظام کا قصور ہے ۔

ماضی پرستی اپنے گوناگوں مسائل سے وقتی فرار کی ایک شکل بھی ہے جس طرح ایک غریب امیروں میں رہ کر باپ دادا کے زمانہ کو یاد کرتا رہتاہے اور اس بات پر گاہے بگاہے افسوس کا اظہار بھی کرتا ہے کہ اس کے آباو اجداد نے اسے وراثت میں غربت چھوڑی جب ایسا شخص یا قوم اپنے حال کو بہتر بنانے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر ان کو گزرا زمانہ نہ صرف یاد آتا رہتا ہے بلکہ سنہرا بھی لگتا ہے اور کبھی کبھی یہ ذہنی بیماری بن جاتی ہے۔

یورپ کے باشندوں کی مانند اگر ہمیں بھی انسانی حقوق اور سہولیات حاصل ہوتیں تو ہمارے ہاں ماضی پرستی یا ماضی کے اقدار کی بحالی اور احیاء کے لئے کوششوں میں اتنا زورنہ ہوتاماضی پرستی کی ایک وجہ جاگیردار طبقات کا یہ خوف بھی ہے کہ سرمایہ داری کے فروغ سے ان کے اختیارات کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں اور ان کو بحال کرنے کا اب یہی واحد راستہ رہ گیا ہے کہ پرانے حالات کو پرانے اقدار کی بحالی اور پرچار کے ذریعہ لوٹا یا جائے۔

ماضی کا جائزہ لینے کے لئے گزرے زمانے میں جھانکنے کی ضرورت نہیں ہے اپنے اردگردقبائلی اور نیم جاگیردارانہ معاشروں کا مطالعہ ہمیں یہ بتا نے کے لئے کافی ہے کہ ہمار اماضی کیا تھا۔

ماضی پرستی کی ایک وجہ یورپی اور مغربی ممالک کی ترقی بھی ہے وہ تہذیبی،سماجی،معاشی ،جمہوری،سیاسی اور زندگی کے دیگر میدانوں میں ہم سے کہیں دور اور آگے نکل چکے ہیں چونکہ ہم یہ سفر دنوں اورسالوں میں طے کرنے سے قاصر ہیں لہٰذا اس کے ردعمل میں ہمیں اپنا ماضی یاد آجاتا ہے اس غریب کی مانند جو پیسہ کے حصول میں ناکامی کے بعد بار بار یہ کہتا رہتا ہے کہ دنیا فانی ہے یا یہ سب کچھ عارضی ہے ایسا کہتے اور سوچتے وقت کہ ہمارا ماضی شاندارتھا اس شخص اور قوم کے افراد کو ماضی میں سرے سے کوئی خامی ہی دکھائی نہیں دیتی جبکہ ہم ذرا سا پیچھے مڑ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ایک جاگیردار اور اس کے سینکڑوں مزارع ہیں اور ان سینکڑوں کی تمام زندگی حتیٰ کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا بھی جاگیردار آقاوءں کے اشاروں کا محتاج تھامحنت کشوں کے کوئی حقوق نہیں تھے شب وروز محنت کرنے کے باوجود ان کے ہاتھ آقاوں کے آگے پھیلے رہتے تھے خواتین کا حال مردوں سے بھی بدتر تھا ان کو مارا پیٹا جاتا تھا ایک مرد چار چار شادیاں کرسکتا تھا اور یہ اس لئے نہیں کہ وہ جسمانی طور پر تکڑا ہوتا تھا بلکہ اس کے پاس پیسہ ہوتا تھا غرضیکہ ایسے معاشروں میں جاگیردار اور اس قبیل کے دیگر طبقات کے پاس تمام اختیارات ہوتے تھے جبکہ عام انسان جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔

ماضی پرستی کچھ لوگوں سے پوری قوم میں سرایت کرجائے تو قومی المیہ بن جاتا ہے جس طرح غربت زدہ خاندانوں میں نشے کے عادی پیدا ہوجاتے ہیں اسی طرح پوری قوم حال سے آنکھیں چرا کر ماضی پرست بن جاتی ہے اور ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کی بجائے ترقی مخالف بن جاتی ہے بالکل اس مفلس کی مانند جو اپنے غصہ کاغبار توڑ پھوڑ کی شکل میں نکالنا چاہتا ہے۔

چونکہ ہمارے معاشرے کا جاگیردار طبقہ عوام کو جدید حقائق، جدید زمانے کے تقاضوں اور معاشرتی، معاشی اور تہذیبی ارتقاء سے دور رکھنے کا خواہاں ہے لہٰذا اس نے ماضی کے پرچار سے ناخواندہ اکثریت کو اپنا ہمنوا بنا یاہوا ہے اور ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ دائمی اقدار کا وجود بھی ہے ۔

پاکستان میں غیر جمہوری حکومتیں عوام میں ماضی پرستی کی ذمہ دارہیں کیونکہ ان حکومتوں کے دور میں عوام کی معاشی ،سماجی اور ثقافتی صورت حال اظہار خیال پر پابندی،مذہبی پرچار اور جہادی ادب کے فروغ، افراط زر، کرنسی نوٹ کی بڑے پیمانے پر چھپائی، مہنگائی، بے روزگاری، حکمران طبقات کی کرپشن اوراداروں کی توڑ پھوڑ اور کھوکھلے اعلانات سے مزید بدتر ہوجاتی ہے اور جب ایسے وقت جاگیردار طبقات اور ان کے بہی خواہ ماضی سے مثالیں دیتے ہیں تو عوام کو ماضی واقعی ایک ایسا ملک یا جزیرہ نظر آتا ہے جہاں خوشی ہی خوشی اور دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں چنانچہ پہلے تو عوام ایسے بادشاہوں کی خواہش کرنے لگتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ ان میں اس کے احیاء کے لئے جدو جہد کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔

ماضی پرستی اس وقت بھی پیدا ہوتی ہے جب کچھ لوگ مغرب اور یورپی ممالک کی سائنسی ترقی کو تمام انسانوں کی ترقی سمجھنے سے انکار کرتے ہوئے اسے مذہبی بنیادوں پر تقسیم کردیتے ہیں اور اس وقت وہ یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ یورپ اور مغرب نے ہم سے وہ چیزں سیکھ لی ہیں جو ماضی میں ہماری ترقی اور خوشحالی کا سبب تھیں اورہم نے اپنے ماضی اور تاریخ کو بھلا دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یورپ نے ترقی ماضی پرستوں سے لڑکر حاصل کی ہے۔

جب جاگیرداری نظام تھا تو بادشاہ اور پوپ کے ایکا نے عوام پر عرصہ حیات تنگ کررکھا تھا سائنسی ایجادات نے سرمایہ داری کے لئے راہ ہموار کی اور سرمایہ داری نے اپنی ضروریات کے تحت تعلیم کو فروغ دیا اور اپنے راستے میں حائل پوپ کے اختیارات کم کئے اور اصلاح کلیسیاء کے نام پر پوپ کو اپنے قدیمی اختیارات سے محروم کردیا گیا اس کے بعد تحقیقات کا لامتنہاہی سلسلہ شروع ہوا جو کسی اقدار کے دائمی ہونے کا قائل ہی نہیں بلکہ وہاں ہر روز ایک نیا سورج طلوع ہوتا ہے۔

پھر یورپ کی ترقی میں نیک دل بادشاہوں کا کوئی کردار نہیں عوام پڑھے لکھے اور باشعور ہیں یورپ کے کسی ملک میں ایک وزیر کسی سینما کا ٹکٹ لینے کے لئے اگر قطار میں کھڑا نظر آتاہے تو یہ اس کی نیک نیتی اور عوام کا خیال یا اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ نہیں بلکہ اس سے عوام کی شعوری سطح کا اظہار ہوتا ہے۔

دائمی اقدار کا تصور اس وقت بھی ذہن میں پیدا ہوتا ہے جب ان اقدار کوصرف اور صرف اخلاق اور اخلاقیات کے ترازو میں تول کر دیکھا جاتا ہے حالانکہ ذرا غور کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا تعلق ملک کے نظام سے بھی ہوتا ہے اور ریاست کے اندر موجود طبقات اور عموماً بالادست طبقات اپنی ضروریات کے تحت ان میں کمی بیشی کرتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک کا سرکاری مذہب بیک وقت ایک ہی ہوتا ہے لیکن نظاموں کے اختلاف کے باعث سماجی، اخلاقی، سیاسی، تہذیبی اور ثقافتی اقدار الگ تھلگ ہوتی ہیں قبائلی نظام میں اخلاقی قدریں اپنی انتہا پسندانہ شکل میں ہوتی ہیں اور قبائلی عوام ان کی پاسداری کے لئے جان دینے اور لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں جبکہ شہروں میں لوگوں کے پاس ان کی طرف دیکھنے کا وقت بھی نہیں ہوتا ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ قبائلی علاقے میں ایک چھوٹابھائی باپ کے علاوہ بڑے بھائی یا اپنے سے زیادہ عمر کے لوگوں کے سامنے بت بنا بیٹھا ہوتا ہے لیکن شہروں میں تعلیم یافتہ بیٹا باپ کو اس کی کمزوریوں سے آگاہ کرتا اور تنقید بھی کرتا ہے اسی طرح ایک قبائلی اپنے مہمان کو بغیر چائے اور کھانا کھلائے جانے نہیں دیتا ہے یہ اس کی مہمان نوازی کی روایت اور اخلاق کا حصہ ہے لیکن صنعتی بڑے شہروں میں یہ حالت نہیں ہوتی ہے کیا اس سے یہ حقیقت سامنے نہیں آتی ہے کہ اخلاقی اقدار ہوں یا دیگر ان کا تعلق علاقہ اور ریاست کے نظام سے ہوتا ہے اور جب ہم پرانی اقدار کا ذکر کرتے ہیں تو یہ دراصل پرانے حالات کے احیاء کی کوشش ہوتی ہے۔

ماضی پرست قبائلی سردار اور جاگیردار یہ جانتے ہیں کہ ان سے ان کا سنہرا دور چھیننے والا سرمایہ دارانہ تعلیمات، ترقی اور نئی ایجادات ہیں لہٰذا وہ ہر نئی چیز کو دشمن کی نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنی نفرت عوام کو ماضی پرستی کی شکل میں منتقل کرتے رہتے ہیں قبائلی سردار جانتے ہیں کہ ایجادات کا سماج کی تبدیلی میں کیا کردار ہوتا ہے اور کس طرح پہیہ کی ایجاد نے آمد ورفت کو سہل و آسان بنادیا تھا اور اس سے معاشرہ میں ترقی کی رفتار پر کیا مثبت اثرات مرتب ہوئے جبکہ بعد ازاں ایجادات نے نہ صرف عوام کے علم میں اضافہ کیا ان کو اپنے بند ماحول اور خول سے باہر نکالا اور ہر نئی ایجاد پرانے نظام پر ہتھوڑے کی ضرب ثبت کرتی گئی برصغیر پاک و ہند میں بجلی، اخبارات، ریڈیو، سکول،لٹریچر اور ٹیلی ویژن جاگیرداروں کے لئے زہر ہلال بنا اور مغربی افکار نے ہمارے جاگیردارانہ سیاسی، سماجی اور اخلاقی اقدار کو چیلنج کیاچنانچہ آج جب کوئی یورپی اقدار کی تعریف کرتا ہے تو جواب میں یہ اپنے دور کے مظالم گنوانے کی بجائے ماضی سے کوئی مثال اٹھاکر کہتا ہے کہ یہی بات تو ہمارے ماضی میں تھی اور یورپ نے یہ ہم سے لی ہے وہ یہ نہیں بتاتا ہے کہ مغرب اور یورپ کو یہ سب کچھ اس کی تعلیمی اور سائنسی ترقی کی بدولت ملا ہے۔

ماضی پرستی عوام میں اس لمحہ پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ کا ایک طبقہ ان کو اپنے معاشرہ کا یورپی معاشرہ سے موازنہ کراتے وقت صرف اور صرف اخلاقی اقدار تک محدود رکھتا ہے اور اپنے ماضی اور یورپ کے حال کا موازنہ کرتے وقت اپنے ماضی کی صرف مثبت چیزوں کو سامنے لاتا ہے اور یورپ کے صرف اور صرف منفی پہلوؤں کی جانب اشارہ کرتا ہے حالانکہ جس کو وہ منفی کہتا ہے وہ سرمایہ دارانہ اقدار یا ضروریات ہیں اور جن سے ابھی ہم آشنا اس لئے نہیں ہیں کہ ہمارے علاقہ اور ملک میں سرمایہ دارانہ نظام نے قدم نہیں جمائے ہیں بلکہ یہاں قبائلی اور جاگیردارانہ نظام اور طبقات حاوی ہیں۔

ہمارا تمام ماضی نہ پوری طرح اچھا تھا اور نہ برااس میں جہاں اچھائیاں تھیں وہاں کئی برائیاں بھی تھیں اگر ہم عوام کے حقوق یا بادشاہوں، شہزادوں اور جسمانی سزاؤں کے حوالے سے اپنے حال اور ماضی کا موازنہ کریں تو پھر بھی ہمارا اس وقت جو برا حال ہے وہ ماضی سے قدرے بہتر ہوگا اور اسے جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے کوششوں سے مزید بہتربنایا جاسکتا ہے۔

Comments are closed.