بیرسٹر حمید باشانی
ایک عہد کا انسان دوسرے عہد کے انسان سے مختلف ہوتاہے۔ ہر عہد کے انسان کی اپنی ضروریات ہوتیں ہیں، اپنے نظریات ہوتے ہیں۔ ہم انفوٹیک اور بائیوٹیک عہد کے لوگ ہیں۔ ہمارے چیلنجز کیا ہیں ؟ ہمار ے نظریات کیا ہیں؟
شکار کے دور کے انسان کا اپنا رہن سہن تھا۔ اپنے اندازو اطوار تھے، اور اپنے نظریات تھے۔ اس سماج کو انسانی معاشرے کی تحقیق و ترقی کا علم رکھنے والے لوگ یعنی ماہر عمرانیات نسبتا غیر طبقاتی سماج قراریتے ہیں۔ زرعی انقلاب کے بعد کے انسان کے لیے شکار کے دور کے انسان کا رہن سہن قابل تقلید نہیں رہا تھا۔ اس کے غیر طبقاتی نظریات اپنانا بھی اس کے کے لیے ممکن نہ تھا ، کہ سماج میں طبقاتی تقسیم آ چکی تھی۔ اور نظریات طبقات کے مفادات کا اظہار ہوتے ہیں۔
صنعتی دور میں جاگیرداری دور کے نظریات ماضی کا قصہ بن گئے۔ یوں یہ سلسلہ چلتا ہوا ہم تک پہنچا۔ ہم لوگ انفوٹیک اور بائیوٹیک دور کے لوگ ہیں ۔ اس انفوٹیک اور بائیو ٹیک دور میں قدیم صنعتی دور کے نظریات کے تحت زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔ یہ دور نئی سوچ، نئے نظریات اور نئے کلچر کو جنم دے رہا ہے۔
میں نے کئی ان ہی سطور میں پروفیسر حریری کی کتاب اکیسویں صدی کے لیے اکیس اسباق کا ذکر کیا تھا۔ اسی کتاب میں حریری انفو ٹیک اور بائیو ٹیک انقلاب کے امکانات اور اثرات پر لکھتا ہے کہ لبرل ازم کا سیاسی اور معاشی نظام صنعتی دور کی ابتدا میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اس نظام کا مقصد بھاپ کے انجن، تیل کی ریفائنری، اور ٹیلی وزیثرن جیسی سیدھی سادی چیزوں کا انتظام کرنا تھا۔
یہ ایک سیدھے سادے دور کا نظام ہے۔ چنانچہ اس نظام کو اس بڑے اورپیچیدہ انقلاب کا سامنا کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے جو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بائیو ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کی وجہ سے آیا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کو کسی ضابطے کا پابند کرنا تودور بات ہے ، اس وقت سیاست دان اور رائے دہندگان دونوں ہی اس نئی ٹیکنالوجی کو سمجھنے سے ہی قاصر ہیں۔
سنہ ۹۰ کی دھائی سے انٹر نیٹ اور سائبر سپیس کی دنیا میں شروع ہونے والا انقلاب بہت آگے تک جا چکا ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس انقلاب کی قیادت سیاسی رہنماوں کے بجائے سائنسدانوں اور انجنیئرز نے کی۔ اس لیے جمہوری نظام کوابھی تک اس کی کوئی خاص سدھ بدھ نہیں ہے۔ جمہوری نظام ابھی تک یہ سمجھنے کی تگ دو میں ہے کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے؟
مالیاتی نظام کو ہی لیجیے۔ آج کمپیوٹر مالیاتی نظام کو اتناپیچیدہ بنا چکاہے کہ عام آدمی کے لیے اسے سمجھنا ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔ اوراگر یہ سلسلہ جاری رہاتو یہ سارا شعبہ ہی خود کار کمپیوٹر نظام کے سپرد ہو سکتا ہے، اور ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ سکتے ہیں، جہاں کوئی انسان مالیاتی نظام کو نہیں سمجھ سکے گا۔ اس سے ہمارے سیاسی و معاشی نظام اور بندو بست پر کیافرق پڑے گا ؟ حکومتیں بجٹ
اجلاسوں اور بجٹ پر بحث و مباحثے کے بجائے بے بسی سے کمپیوٹر الگورتھم کا انتظار کر ے گی کہ یہ مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لا کر ہمارے لیے بجٹ منظور کرے، اور دیگر بڑے مالیاتی فیصلے کرے ۔
ہمیں انفوٹیک اور بائیو ٹیک انقلاب کا سامنا ہے۔ انفوٹیک اور بائیو ٹیک کا یہ جڑواں انقلاب نہ صرف سماجی اور معاشی نظام کو نئے سرے سے تشکیل دے سکتا ہے ، بلکہ یہ ہمارے جسم و ذہن کی بھی تشکیل نو کر سکتاہے۔ ہم انسانوں نے اپنے سے باہر کی دنیا کو کنٹرول کرنا تو سیکھ لیا ہے ، مگر ہماراخودا پنے اندر کی دنیاپر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں ڈیم کیسے بنایا جاتاہے۔ دریا کو کیسے بہنے سے روکاجا سکتا ہے، مگر ہمیں یہ نہیں معلوم کے اپنے اندر عمر رسیدگی کے عمل کو کیسے روکا جا سکتا ہے، بڑھاپے سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
اس لیے یہ اچھی خبر ہے کہ انفوٹیک اور بائیو ٹیک انقلاب ہمیں اپنی اندر کی دنیا پر کنٹرول دے گا ۔ اور ہمیں اپنی زندگی خود تعمیر کرنے کے قابل بنائے گا۔ ہم اس انقلاب سے یہ سیکھیں گے کہ دماغ کیسے ڈیزائن کیا جا سکتا ہے، زندگی کیسے بچائی جا سکتی ہے۔ عمر کیسے لمبی ہو سکتی ہے۔ مگر اس سارے عمل کے نتائج کیا ہوں گے ؟ اس بات سے کوئی بھی آگاہ نہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ انسان نے ہر دور میں اسی طرح بڑی عقلمندی سے انتہائی پیچیدہ اور مہلک ہتھیار بنائے ، مگر ان ہتھیاروں کا استعمال اس عقلمندی اور دانشمندی سے نہیں کیا۔ ان ہتھیاروں کے غیر دانشمندانہ استعمال سے دنیا میں تباہی اور بربادی کی کئی داستانیں موجود ہیں۔ ایسا انفوٹیک اور بائیوٹیک کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، اسے تباہی و بربادی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ماضی میں ہم نے دنیا کو حسب منشا چلانا سیکھا، اور اپنے گرد وپیش کی دنیا کی تشکیل نو کی۔ مگر چونکہ ہم عالمی ماحولیات کے نظام کو نہیں سمجھ سکے ، چنانچہ جو کچھ ہمنے کیا اس سے پوار ماحولیاتی نظام متاثر ہوا۔ اور آج ہم بیٹھ کر ماحولیاتی تباہی کا ماتم کر رہے ہیں۔ اور ہمیں اس وقت سارے ماحولیاتی نظام کے ڈھیر ہو جانے کا خطرہ ہے۔
بائیو ٹیک اور انفو ٹیک میں انقلاب انجنئیرز، سائنس دانوں اور کاروبار ی لوگوں نے شروع کیے ہیں۔ یہ لوگ اپنے فیصلوں کے سیاسی اثرات سے نا واقف ہیں۔ اور وہ یقیناًعوام کے نمائندے نہیں ہیں، اور نہ ہی عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اس انقلاب کو عوام کے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے کیا پارلیمنٹرینز اور اور سیاسی جماعتیں معاملات اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہیں۔ فی الوقت ایسا نہیں لگتا۔ ابھی تک یہ سوال سیاسی ایجنڈے پر موجود ہی نہیں ہے۔
سنہ ۲۰۱۶کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے رائے دہندگان کو خبر دار کیا کہ میکسیکو کے غریب تارکین وطن ان کا روزگار چرالیں گے، اس لیے سر حدوں پر دیوار بنانے کی ضرورت ہے۔ مگر اس نے رائے دہندگان کو یہ نہیں بتایا کہ مصنوعی ذہانت ان کے روزگار کے لیے اصل اورسب سے بڑا خطرہ ہے۔
ایسی ہی وجوہات کی بنا پر رائے دہندگان کالبرل کی کہانی اور یہاں تک کے لبرل جمہوریت سے اعتمادا ٹھ رہا ہے۔ عام آدمی مصنوعی ذہانت اور بائیو ٹیکنالوجی کو بے شک نہ سمجھتا ہو، لیکن اس کو اتنا ضرورپتہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے طفیل مستقبل اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
آج عام آدمی اپنے اپ کو غیر متعلق اور بے سودسمجھتا ہے۔ اس کے ارد گردکئی پر اسرا رالفاظ گردش کرتے ہیں۔ گلوبلائزیشن، بلاک چین، جینیٹک انجینئرنگ، آرٹیفیشل انٹلیجنس،مشین لرننگ وغیرہ، اور عام آدمی کو شک پڑتا ہے کہ ان میں سے کسی لفظ کا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
بیسویں صدی میں عوام نے استحصال کے خلاف بغاوت کی۔ مگرشائد اکیسویں صدی میں عوامی انقلاب اس روایتی معاشی اشرافیہ کے خلاف نہیں آے گا، جو ان کا استحصال کرتی رہی ہے، بلکہ ان کے خلاف آئے گا جن کے طفیل وہ بے روزگار، بے کار ہو ں گئے، اور جن کو انفوٹیک اور بائیو ٹیک انقلاب کے طفیل عام آدمی کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ یہ ایسی جنگ ہو گی جو استحصال کے خلاف جنگ سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ہمارے دور کا انفوٹیک اور بائیوٹیک انقلاب تاریخی طور پر موجود روایتی طبقاتی جدہو جہد کی شکل بدل کر رکھ دے گا۔ تاریخ میں عام طور پر عوام کی جہدوجہد اشرافیہ کے ان بالادست طبقات کے خلاف رہی ہے، جو ان کا معاشی استحصال کرتے تھے۔ مگر اب اس جنگ کا رخ ان لوگوں کے خلاف بھی ہوگا جو نئی ٹیکنالوجی کو بروے کار لاکر لاکھوں اور کروڑں لوگوں سے ان کا روزگار چھین لیں گے۔
دنیا اس وقت انفوٹیک اور بائیوٹیک انقلاب کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں بے روزگاروں کا سامنا کرنے اور ان کو روزگار کے متبادل زرائع مہیا کرنے کی فکر میں مبتلا ہیں۔ عین اس وقت پاکستان میں لاکھوں نئے روزگار پیدا کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ روزگار کے یہ مواقع انفوٹیک اور بائیوٹیک انقلاب کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر تو پیدا نہیں ہوں گے ۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ اس جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہمارا رشتہ اور رویہ کیا ہوگا؟ یہ ایسا سوال ہے جس کے جواب میں کچھ وقت لگے گا۔
♦