عامر گمریانی
میرے دوست ڈاکٹر اکمل بنگش کے نزدیک مسائل دو ہیں
۔(۱)۔ لوگ اپنے آپ کو انتہا کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہی انتہاپسندانہ سوچ لئے کچھ مذہبی انتہا پسند بن جاتے ہیں دوسرے اتنے لبرل کہ لبرل ازم کی بنیاد رکھنے والے بابوں سے بھی دو قدم آگے نکل پڑتے ہیں۔ معتدل طبقہ جو حجم میں سب سے زیادہ ہوتا ہے ہمیشہ خاموش رہتا ہے اور متنازعہ صورتحال میں اس کی خاموشی اور بڑھ جاتی ہے۔ اس درمیانی طبقے کی خاموشی سے دونوں انتہاؤں پر موجود طبقات اور طاقتور اور شیردل بن جاتے ہیں، نتیجتاً تنازعہ حل ہونے کے بجائے اور سنگین ہوتا جاتا ہے اور اس سے معاشرہ بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ معاشرے کی اس بگاڑ کا زیادہ تر نقصان معتدل درمیانی طبقہ ہی اٹھاتا ہے۔
۔(۲)۔ متنازعہ صورتحال جب اپنے تمام تر نقصانات کرکے ا ختتام پذیر ہوتی ہے تو ہم لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ ہم صورتحال کی تمام تر ہولناکی اور سفاکی نظرانداز کرکے شکر ادا کرتے ہیں کہ چلیں بلا ٹل گئی۔ مسئلے کی ظاہر اور پوشیدہ وجوہات کے متعلق غور کرنا، انہیں سمجھنا اور ان کے تدارک اور سدباب کا حل تلاش کرنا ہمارے مزاج میں شامل ہی نہیں۔ ہم اس امید پر ایک دفعہ پھر جینا شروع کر دیتے ہیں کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا اور جن لوگوں کے باعث ہم اس صورتحال میں پھنس گئے تھے، خود ہی اپنی غلطیوں سے سیکھ چکے ہوں گے اور آئندہ یہ غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔
میں نے اس روئے کے لیے امید کا لفظ استعمال کیا لیکن درحقیقت یہ امید پرستی نہیں بلکہ حقائق سے روگردانی اور چشم پوشی ہے نتیجتا ہم ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈھسے جاتے ہیں اور بالآخر ہم اس کو لاعلاج بیماری تصور کرکے قسمت کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس طرح یہ صورتحال برقرار رہتی ہے اور ہم نسل درنسل اس کے شکنجے میں پھنستے جاتے ہیں۔ عدیم النظیر خوشحال خان خٹک نے کہا تھا
لا یو شور راځنې لاړ نۂ وی بل راشی
مګر زۂ پيدا په درځ د شور و شر ئم
( ابھی ایک شور (آزمائش) گیا نہیں ہوتا، دوسرا آجاتا ہے۔ گویا میں شور و شر والے روز پیدا ہوا تھا)
ہم اگر حالیہ صورتحال کا جائزہ لیں تو سڑکیں، چوک اور چوراہے تو ایک طرف، سوشل میڈیا پر بھی اس کے ثبوت ملتے ہیں اور وہ بھی وافر مقدار اور تعداد میں۔ دونوں طرح کے انتہاپسندوں کی یہ لڑائی سوشل میڈیا پر پورے دھوم دھام سے لڑی گئی اگر چہ سڑکوں پر صرف مزہبی
انتہاپسندوں کا راج تھا۔ “عاشقوں” نے اس لڑائی میں لبیک یا رسول اللہ کے نعرے لگائے ہر جگہ آگ کے الاو جلائے اور دنیا کی آگ کے زریعے آخرت کی آگ سے پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ ہمارے لبرل دوست ویسے بھی گرمی اور سردی زیادہ برداشت نہیں کرسکتے اور انہیں معتدل ماحول اور موسم ہی راس آتا ہے اس لئے یہ سڑکوں پر کم ہی نکلتے ہیں اور اگر کبھی ماحول خوشگوار پا کر نکلیں بھی تو نان نفقے کے ساتھ، موم بتیاں جلائیں، نرمی کے ساتھ چند جملے ادا کئے اور چل دئے واپس اپنے ڈرائنگ رومز میں کہ اس جنگ میں یہی ان کا محاز اور مورچہ ہے۔
حل ان مسائل کا ظاہر ہے یہی ہے کہ میانہ رو طبقے کو اپنی خاموشی توڑ کر اس خول سے باہر آنا ہوگا۔ اسے دھیرے دھیرے بولنا شروع کرنا پڑے گا اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی آواز بلند کرنی پڑے گی۔ یہ تماشبینی والا رویہ کسی زہر سے کم نہیں۔ تنازعات کے زہریلے اثر سے یہ محفوظ نہیں تو ان کے حل کے لئے آگے آنا ہوگا۔ شدت پسندی سے پاک باہمی احترام پر مبنی لاجیکل روئے اس دھرتی کے مسائل کا حل ہیں اور یہ روئے یہی خاموش طبقہ ہی فراہم کرسکتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب طوفان گزر جائے اور قدرے سکون میسر آئے تو ان مسائل کے ظاہر اور باطن میں جھانکنا ہوتا ہے۔ سامنے نظر آنے والے وجوہات سے زیادہ اہم پوشیدہ وجوہات ہوتی ہیں جس کے سرے ہماری تاریخ، معاشرت، عقائد، اقدار، ادب اور معاش وغیرہ سے جا ملتے ہیں اور وہی پر ان کا حل ہے۔ ہم اگر کسی مسئلے کو درخت سے تعبیر کریں تو اس کے اثرات اس کی ٹہنیاں ہوتی ہیں اور اس کی وجوہات نیچے زمین میں دھنسی اس کی جڑیں۔ ہم تمام عمر ٹہنیوں پر صرف کرتے ہیں، گہرائی میں جاکر اس کی جڑوں کو کریدنے سے ہمیں شعف نہ ہونے کے برابر ہے۔
غوروخوض پر مبنی عمل اس وقت ممکن ہے جب حالات معمول کے مطابق ہوں، پشتو کے محاورے ہیں کہ جنگ کے دوران گھوڑے نال نہیں ہوتے اور جب آگ لگے تو کنواں نہیں کھودا جاتا۔
♦