ماسکو میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا نیا دور شروع ہوا ہے۔ جس میں بھارتی وفد بھی شامل ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ماسکو کی یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہو گی۔یاد رہے کہ ماضی میں امریکہ ایسی کئی کوششیں کر چکا ہے لیکن پاکستان کی طرف سے طالبان کی جانب سے اپنے نقطہ نظر میں کوئی لچک پیدا نہ کرنے کی وجہ سے یہ مذاکرات ناکام ہو جاتے رہے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق جب تک پاکستان اپنی دفاعی گہرائی کی پالیسی سے تائب نہیں ہوتا، طالبان کی حمایت سے باز نہیں آتا اور افغانستا ن کو ایک آزاد ملک نہیں سمجھتا اس وقت تک خطے میں امن قائم ہونا ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے۔
تجزیہ نگار ماسکو میں ہونے والے افغان امن مذاکرات سے متعلق اجلاس میں بھارتی وفد کی شمولیت کو ماہرین خوش آئند قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں اس طرح ہندوکش کی اس جنگ زدہ ریاست میں امن کی فضا قائم کرنے میں مدد ملے گی۔
نو نومبر کو روسی دارالحکومت ماسکو میں افغان امن کے حوالے سے مذاکرات کا ایک دور ہوا، جس میں امریکا، بھارت، چین، ایران، پاکستان، افغان طالبان اور افغان اعلیٰ امن کونسل کے ارکان کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے وفود نے بھی شرکت کی۔
یہ مذاکرات ستمبر میں ہونا تھے لیکن افغان حکومت کے اعتراضات کے بعد انہیں ملتوی کر دیا گیا تھا۔ بھارت کی طرف سے اس کے کسی وفد نے سرکاری طور پر اس اجلاس شرکت نہیں کی تاہم غیر رسمی طور پر اس میں بھارتی حکومت کی طرف سے امور خارجہ کے ماہر دو نمائندوں نے حصہ لیا، جو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ افغان حکومت اور امریکا نے بھی اس میں غیر رسمی طور پر اپنے نمائندے بھیجے۔ افغان حکومت نے حکومتی نمائندوں کی جگہ اعلیٰ امن کونسل کے ارکان کو بھیجا جب کہ امریکا نے ماسکو میں تعینات اپنے سفارت کار کو اس اجلاس میں بھیجا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت نے ایسے کسی مذاکرات میں شرکت کی ہے، جس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ یہ اجلاس امن کے لیے راستے کھول سکتا ہے۔ معروف پاکستانی تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں اس اجلاس میں اتنے سارے نمائندوں اور طالبان کی شرکت سے اس خیال کو تقویت مل رہی ہے کہ اب شاید افغانستان میں امن قائم ہو جائے۔
یوسف زئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں بھارت کی ان مذاکرات میں شرکت بہت معنی خیز اور مثبت ہے کیونکہ افغان حکومت، امریکا اور بھارت کی سوچ تقریباﹰ ایک ہی جیسی ہے۔ ان کا اس طرح طالبان اور پاکستان کے نمائندوں کے سامنے بیٹھنا مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔ اس اجلاس کی وجہ سے امریکا پر بھی دباؤ بڑھے گا کہ وہ امن کوششیں تیز کر دے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا، تو چین، روس، ایران، پاکستان اور بھارت خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر اس مسئلے میں رہنما کردار ادا کریں گے‘‘۔
رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ افغان طالبان پر بھی روس اور خطے کے دوسرے ممالک کا دباؤ بڑھے گا کہ وہ امن کے لیے کام کریں کیونکہ روس نے ان کو ایک طرح سے قانونی حیثیت دلوانے کی کوشش کی ہے۔
DW/Web desk