عامر گمریانی
طاہر داوڑ کی اندوہناک موت سے اس ملک کے ہر کونے میں ایک طوفان برپا ہونا چاہئے تھا۔ طوفان تو کیا کوئی ارتعاش بھی پیدا نہ سکا۔ یہ اس بھیانک حقیقت کا ثبوت ہے کہ ہم اپنی بربادی کا سفر جلد از جلد طے کرنا چاہتے ہیں۔ جس طرح کے کام ہمارے اردگرد ہورہے ہیں اُن سے اِس بات میں کسی شک و شبے کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس دھرتی کے دشمن اس کی بربادی کے لئے پوری طرح سرگرم اور یکسو ہیں۔ یہ خونی کھیل کون کھیل رہا ہے اور اس میں کون دانستہ یا غیر دانستہ طور پر شریک ہے اس سے قطع نظر ایک بات طے ہے کہ یہ لوگ اس ملک کے بدترین دشمن ہیں۔
طاہر داوڑ شہید وزیرستان یا باجوڑ میں نہیں بلکہ اس ملک کے قلب اسلام آباد میں لاپتہ ہوئے اور لاپتہ کرانے والے پنجاب سے ہوتے ہوئے پختونخوا کی مثالی پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر افغانستان لے گئے اور وہیں پر بیدردی سے قتل کردئے گئے۔ کاروبار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم میرے عزیز دوست نعیم کا پیغام آیا کہ سارا دن شدید پریشانی اور زہنی تناو میں گزرا۔ نعیم، داوڑ شہید کو جانتے تھے، دونوں کی کئی ملاقات تھی۔ نعیم کے نزدیک داوڑ شہید ایک ایماندار، فرض شناس اور نڈر آفیسر تھے۔
طاہر داوڑ کی موت جتنی المناک ہے اتنی ہی تشویشناک۔ انتخابی مہم کے دوران عمران خان سے لے کر پاکستان تحریک انصاف کا ہر اہم اور غیر اہم رہنما کسی بھی موقع پر ایک بات کی تکرار نہیں بھولتے۔ ٬ ہم نے پختونخوا پولیس کو مثالی بنا دیا٬۔ کچھ تو ترنگ میں آکر اس کا موازنہ یورپی ممالک کی پولیس بلکہ اس سے بھی بہتر بتاتے تھے۔ اسی مثالی پولیس کا ایک افسر قریہ در قریہ پھیلے ناکوں سے ہوتا ہوا ملک کی سرحد پار کرایا جاتا ہے اور مثالی پولیس کو پتہ تک نہیں چلتا۔
خیبر پختونخوا میں پولیس کے علاوہ پاک فوج کے جوان بھی ناکے سنبھالے ہوئے ہیں اور ہم پوری دنیا کو یہ باور کرارہے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت لی ہے اور جو اکا دکا دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں وہ افغانستان سے کنٹرول ہورہے ہیں۔ ہماری سرحدیں محفوظ ہیں، دشوار ترین سرحد پر باڑ لگ چکی ہے، ہماری فوج کے مستعد جوان ہمہ وقت چوکس اور تیار ہیں۔ اور کسی کو جرات نہیں کہ ہماری سرحد پار کرکے افغانستان جا کر کوئی بھی گڑ بڑ کرے۔ ایسے میں ہماری پولیس کا ایک حاضر سروس افسر دیہاڑے اغوا ہو کر افغانستان پہنچتا ہے جہاں ان کی لہولہان لعش ملتی ہے، ایسے میں کون ہوگا جو ہمارے دعووں پر باور کرے گا؟
باہر کی دنیا کے علاوہ طاہر داوڑ کی شہادت سے جہاں عام آدمی کے عدم تحفظ کے احساس میں خطرناک اضافہ ہوا وہاں پولیس کے افسروں اور جوانوں کے حوصلے بھی پست ہوئے ہیں کہ ریاست اگر لاچارگی کی تصویر بن جائے تو قانون نافذکرنے والے اداروں میں کام کرنے والے اہلکار کس طرح اپنے حوصلے بلند رکھ سکتے ہیں؟ افغان طالبان نے اگر چہ طاہر داوڑ کے قتل سے اپنے کسی بھی قسم کے تعلق سے انکار کردیا ہے لیکن خدشات ضرور موجود ہیں۔ اپنے ایک اعلی اور بہادر پولیس افسر کی المناک موت کے اس تلخ تجربے کے بعد ہماری پولیس کس طرح مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوگی؟ اگر خدانخواستہ حالات ایک دفعہ پھر خراب ہوجائیں تو ہماری پولیس نفسیاتی خوف میں مبتلا رہے گی۔
طاہر داوڑ کی شہادت کے اثرات سے جڑا ایک اور پہلو پختون تحفظ موومنٹ کا ہے۔ پی ٹی ایم نے اگرچہ پورے پختونخوا اور پختونخوا سے باہر جدھر بھی پختون ہیں سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے لیکن اس تحریک کا ظہور محسود قبائل کے علاقوں سے ہوا جہاں بہت سارے لوگ مارے گئے جن میں عام لوگ اور مقامی لیڈرز شامل ہیں۔ پی ٹی ایم کے ابھرنے اور پزیرائی حاصل کرنے کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن اس کی ایک وجہ وہ انتقامی جزبہ بھی ہے جو پختون ہزاروں سال سے بہ حیثیتِ قوم پالتے بلکہ بڑے ناز اور غرور کے ساتھ پالتے آئے ہیں۔ ان حالات میں ایک اور اہم قبیلے کے سپوت کا شکوک و شبہات سے بھرا بھیانک قتل شورش زدہ علاقوں کے علاوہ ایک عام پختون کے دل و دماغ پر کیا اثرات چھوڑےگا؟
ہمارے ریاستی اداروں کو اس بابت سوچنا چاہئے بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ سوچنے کا وقت بہت کم رہ گیا ہے اب انہیں کچھ بلکہ بہت کچھ کرنا ہوگا۔ پاکستان کی کمزور ہوتی ریاست کو بہت سارے لوگوں کے خیال میں اس کی مضبوط فوج نے بچائے رکھا ہے لیکن یقین جانئے پختونخوا کی حد تک اس ریاست کو، اس ملک کو دل و جان سے چاہنے والے پختونوں نے بچا رکھا ہے، جس دن پاکستان پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے تیار پختونوں نے اپنا سارا وزن غیر مشروط طور پر قام پرست جماعتوں اور بالخصوص پی ٹی ایم کے پلڑے میں ڈال دیا، اس دن لگ پتہ چل جائے گا۔ اس ملک کا اگر کوئی مستقبل ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہے تو ہمیں اس کو سیکیورٹی سٹیٹ کے شکنجے سے نکال کر فلاحی ریاست بنانا ہوگا اور بس۔
♦