بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ جب بھی کسی نے نقل مار کر کوئی بھی امتحان پاس کیا ہو تو اسے سرائیکی میں کہتے تھے ” ووئے وایہ بھٹھنڈا (شارٹ کٹ) ماری ودیں“۔۔۔۔ کہ تم نے وایہ بھٹھنڈا (شارٹ کٹ) یعنی نقل ماری ہے یا کسی سے پرچہ پاس کروایا ہے۔ میں نے جب تفصیل پوچھی تو بتایا گیا کہ دلی ہم مال بیچنے بہاولنگر براستہ بھٹھنڈا جاتے تھے جو لاہور سے کہیں کم پڑتا ہے لہذا وہ دلی کا شارٹ کٹ ہے۔
سابقہ ادوار حکومت کے تجربات سے اب تک یہی سیکھا ہے کہ ہندوستان پاکستان کے سیاسی حالات آپس میں بھلے جو بھی رہے ہوں مگرانڈیا سے تجارت اور لاہوری پنجابی تاجروں کی معیشت کو ظاقتور بنانے لئے مسلم لیگ کی جماعت اورنوازشریف واگہہ بارڈر کی تجارت کو ہمیشہ فروغ دیتے ہیں تاکہ دلی سے پنجاب کا پرانا تجارتی رشتہ بحال رہے اور پنجاب کی اجارہ داری پاکستان پر قائم رہے ۔
جن پنجابی آبادکارمہاجروں سے تقسیم ہند کے وقت دل دہلا دینے والی سکھوں کے مظالم کی داستانیں سنتے آئے ہیں اور پھر انہیں پنجابی مہاجر بزرگوں اور انکی نئی نسل کو سکھ یاتریوں کے گلے میں ہار پہناتے خدمتیں کرتے سرکاری پروٹوکول دیتے بھی دیکھا ہے اور مجال ہے کہ پاکستانی میڈیا دن بھر اسکی فل کوریج نہ کرے ۔
یہ نہایت خوش آئند بات ہے ۔جس کے لئے پنجابی قوم قابل تحسین ہے ۔ مگر یہ سب ہندو ، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے لئے ہرگز نہیں ہے جنہوں نے اپنا سب کچھ یہیں چھوڑا اور جان بچا کر بھاگے تھے ۔۔ جن کی اکثریت سرائیکی وسیب پشتوں خواہ بلوچستان اور بالخصوص سندھ میں نمایاں تھی وہ سنہ 47کی نفرت کے پیمانے پر آج تک قابل نفرت اور نا قابل قبول سمجھے جاتے ہیں ۔
پیپلزپارٹی کی حکومت اور اسکی لیڈرشب سندھ کو معاشی طاقت دینے کیلئے موناباؤ بارڈر کھولنے کا پورا زور لگاتی ہے تاکہ بمبئی کے ساتھ پرانا تجارتی رشتہ بحال کیا جائے اور پنجاب کی اجارہ داری کو توڑا جاسکے مگر اسٹبلشمنٹ میں بیٹھا طاقتور پنجابی جانتا ہے کہ سندھ کو معاشی طاقت دینا خطرناک ہے۔ پشتونوں کو مذہب کی افیون کھلا کرہر دو اطراف بارڈر پر سمگلنگ اور دین میں جہاد فی سبیل اللہ پر لگا کر خود بھی مال کماؤ اور ساتھ میں امریکہ کی خدمت بالعوض ڈالروں کی کمائی الگ ۔۔۔۔۔
بلوچوں کو بھی ایرانی بارڈر سے سمگلنگ کے تمام آداب سکھا کر پشتونوں کی طرح استعمال کرو۔۔۔۔ دس سے پندرہ قبائیلی سرداروں پر ایک سردار بگٹی جیسا فٹ کرو ۔۔۔۔۔ بلوچستان کے تمام قدرتی وسائل سے لیکر قیمتی بندرگاہوں پر بھی قابو ہوجاؤ ۔۔۔۔ اللہ اللہ خیرسلہ ۔۔۔ یہ ہے پنجابی اسٹبلشمنٹ کی پاکستان میں اجارہ داری جو آج تک بھی قائم ہے ۔
ماضی میں سرائیکی وسیب کی معاشی خوشحالی کا امکان ریاست بہاولپور، ملتان دیرہ جات پر مشتمل سرائیکی وسیب کی مکمل تجارتی معیشت کا انحصار دلی اور پنجاب کی منڈیوں پر تھا جس کا واحد اور سب سے نزدیک ترین شارٹ کٹ بہاولنگر براستہ بھٹنھنڈہ تھا جسکی ریل کی پٹڑیاں اب بھی دونوں اطراف میں مکمل فعال اور ٹرین چلتی ہیں۔
اس قدیم تجارتی راستہ کو بحال کرنے کی انڈیا کی طرف سے کئی مرتبہ تجاویز آچکی ہیں جسے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتیں ہمیشہ رد کرتی چلی آئی ہیں ۔ نئی حکومت سے سرائیکی وسیب کو بہت امید تھی کہ جلد ہی پی ٹی آئی کی حکومت سرائیکی عوام کے اس دیرینہ مطالبے پر غور کرتے ہوئے پاکستان کے مرکز کی معیشت کو مضبوظ کرنے کی خاطر بہاولنگر بھٹھنڈہ کا تجارتی راستہ ضرور بحال کرے گی۔
مگر افسوس کہ اس نئی حکومت نے بھی اسی پنجابی مائنڈسیٹ یا پنجابی اسٹبلشمنٹ کی غلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرتارپوربارڈر کا آج افتتاح کیا ہے ۔یقیناً پنجابی نیشنلزم اتنا مضبوط ضرورہے کہ جسے آج تک نہ انتہا پسند سکھ مذہب اور نہ انتہاپسند اسلامی فرقے باوجود سنتالیس کے کشت و خوں ریزی اور حب الوطنی کے فوجی برانڈ جذبے مل کر بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے۔
ہماری نظر میں یہ ایک خوش آئند بات ہے جسے پاکستان کی دیگر محکوم اقوام کو بھی تقلید کرنی چاہئے ۔ مگر یہ اس لئے سب ممکن ہو سکا ہے کہ پنجابی قوم اسٹبلشمنٹ کی باندی کا کردار ادا کرتی ہے اور بدلے میں یہ سب ملتا ہے ظاہر ہے ابھی بلوچ سندھی پختون اور سرائیکیوں میں ابھی اتنی قومی غیرت بہرحال موجود ہے کہ اپنا حق جمہوری انداز میں سیاسی انداز میں تو مانگ سکتے ہیں، وقت آنے پر چھین بھی سکتے ہیں۔
مگر ڈکٹیٹرز کی غلامی نہیں کرسکتے۔ اور دوسروں کو محکوم اور خود کو تاریخ کا مجرم نہیں بنا سکتے چاہے سرائیکی صوبہ سودن کا وعدہ کر کے نہ بنائیں یا ہمارے لئے کوئی تجارتی راستہ نہ کھولیں ۔۔۔ کیوں کہ ایک دن اپنی مجبوری سے یہی سرائیکی صوبہ بھی بنائیں گے اور تجارتی راستہ بھی کھولیں گے تاکہ پاکستان کا مرکز جو سرائیکی خطہ پر مشتمل ہے۔ مضبوط ہو ۔۔۔ مرکز کی مضبوطی پاکستان کی بقاء کی ضمانت ہے ۔
♦