ہم چار بھائی ہیں
ہم میں سے کسی کا نام بھی یوسف نہیں ہے بلکہ ایسے نام ہیں جو ایک طبقاتی سماج کے اندر کا حال بتاتے ہیں میرے بڑے بھائی کا نام امیر خان ہے چونکہ ہمارا تعلق ایک ادنیٰ طبقہ سے ہے تو شاید باپ نے اس کمی کے احساس کودور یا پورا کرنے کے لئے اپنے پہلے اور بڑے بیٹے کانام امیر (خان) رکھا کہ چلو پیسہ نہیں تو نام تو امیر خان ہے۔
دوسرے اور منجھلے کا نام فقیر گل ہے چونکہ یہ بھائی جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں پیدا ہوا تھا اور ان دنوں غریبوں کو بھکاری بنانے کے لئے زکوۃ نظام کا بڑا چرچا تھا وہ نہیں چاہتے تھے کہ غریب طبقہ کے لوگ سرمایہ داروں کے ملکیت کی جانب میلی آنکھوں سے دیکھیں ۔لہٰذا انہوں نے یہ نظام متعارف کرایااس نظام کے نفاذ کے ساتھ ہی غریب تو غریب متوسط طبقہ کے باسی بھی ایسی صورت اور حلیہ بنانے لگے تاکہ انہیں دیکھ کررحم اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوں اور ان کا نام بھی زکوۃ کمیٹی کی فہرست میں شامل ہوجائے لہٰذا بابا نے سوچا کہ نام بھی ایسا ہونا چاہئے جس سے غربت اور افلاس ٹپکتاہو۔
بنگال کے ایک لکھاری ابراہیم جلیس نے اسی لئے اپنی ایک کتاب کا نام
’’ چالیس کروڑ بھکاری‘‘
رکھا تھا تا کہ عالمی برادری کے دل میں رحم دلی کے احساسات صرف ایک طبقہ کے لئے ہی پیدا نہ ہوں اور انسانی بنیادوں پر دینے والی امداد میں اضافہ کیا جائے ان کا خیال تھا کہ یہ حالت پورے ایشیاء کی ہے ان دنوں شاید ایشیاء کی آبادی بھی اتنی ہی ہوگی البتہ ان سے ایک غلطی ضرور ہوئی کہ انہوں نے اس میں ان ممالک کے صدور اور وزراء عظم کو بھی شامل کرلیا تھا۔
بہر حال، ہمارے دوسرے بھائی کا نام فقیر گل ہے اور جب وہ کسی دوست کے گھر جاکر دروازے پر دستک دیتے ہیں اور دوست کا باپ، بھائی، ماں،بیوی یا بہن پوچھتی ہے ’’ کون ہے؟‘‘ ۔
اور جواب میں وہ کہتے ہیں:
’’ فقیر ہوں‘‘
تو کبھی کبھار غلطی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بھکاری ہے تو جواب دیتے ہیں:۔
’’ بابا! معاف کرو‘‘
ایک مرتبہ کہنے لگے کہ ایک دوست کے گھر سے اس کی بہن سالن اور روٹی ہاتھ میں لیکر دروازے پر آکر دینے لگی میں نے اس کے بھائی کا نام لیا تو بے حد شرمندہ ہوگئی اور بعد ازاں اسی شرمندگی نے ان دونوں کو رشتہ ازدواج میں باندھ دیا اسی لئے جب بھی کوئی ان کے نام پر اعتراض کرتا ہے تو وہ اس کا ایک یہ فائدہ بھی بتاتے ہیں۔
تیسرے کا نام غلام ہے انہیں اگر اس نام سے کوئی پکارتا ہے تو اس کا ہر گز برا نہیں مناتے ہیں اور کیوں منائیں یہ تو ان کا نام ہے پہلے میرا خیال تھا کہ یہ انگریز راج میں پیدا ہوا اس لئے بابا نے اس کا یہ نام رکھا ہے مگر عمر پر غور کیا تو خیال آیا کہ پاکستان بننے کے بعد پیدا ہوا اور یہ نام رکھا گیا۔
ابھی تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ یہ نام اس لئے رکھا گیا تھا تاکہ ہمیں یہ یاد رہے کہ ہم انگریز کے غلام رہ چکے ہیں یا پھر یہ ہمیں یہ یاد دلانے کے لئے رکھا گیا ہے کہ گو کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ انگریز چلا گیا ہے اور ہم آزاد ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم اب بھی غلا م ہیں۔
انگریز کے راج میں یہ لفظ گالی تھی مگر پاکستان بن گیا تو اس کو مرغوب بنانے کے لئے کئی لوگوں نے نہ صرف اپنے بچوں کے نام غلام رکھے بلکہ بعد ازاں غلامی کو باعث فخر بنالیا گیا اور اب تو کوئی بھی برا نہیں مناتا ہے۔
ویسے بھی ہمارے ایشیاء میں غلامی کو برا تصور نہیں کیا جاتا ہے کوئی بیوی کا غلام ہے تو کوئی کسی پیر کا غلام ہے۔
لیکن میرا نام
کدو گل ہے پشتو میں کدو گل بے وقوف کو کہتے ہیں پتہ نہیں باپ نے یہ نام کیوں رکھا اس کی وجہ تسمیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم رفتہ رفتہ روبہ زوال ہیں اور جب ایک خاندان زوال کی جانب رواں دواں ہو تو اپنی تمام تر دانش و عقل مندی کے باوجودوہ سماج کے باسیوں میں بے وقوف ہی کہلاتا ہے چنانچہ باپ نے یہ نام اس لئے رکھا کہ لوگ میرے بیٹے کو بے وقوف کہیں تو بہتر ہے کہ ا س کا نام ہی ایسا رکھ دیا جائے کہ لوگ اسے پکاریں اور میرا بیٹا ناراض بھی نہ ہو
اگر ان کا ایک اور بیٹا ہوتا تو مجھے شک ہے کہ وہ اس کا نام پاکستان خان رکھ دیتے کیونکہ ان دنوں ہر قبائلی اپنے کو پاکستانی ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے میرے ابو ملنے والوں سے کہتے
’’اللہ پاک اور دربار یی ہم پاک‘‘
اللہ بھی پاک ہے اور ان کا گھر بھی پا ک ہے
یعنی ہر طرف امن اور چین ہے اور ہمیں بنسری بجانے کی پوری پوری آزادی ہے ۔
♦