جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو اس وقت ایودھیا میں وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور شیو سینا کی جانب سے رام مندر تعمیر کے سلسلے میں ایک بڑا پروگرام جاری ہوگا۔ یوں تو اس کالم کے لکھے جانے تک یہ واضح نہیں تھا کہ ایودھیا میں وی ایچ پی کے اس پروگرام کا کیا مقصد ہے۔ ہاں، ان کی طرف سے یہ اعلان ضرور تھا کہ وہاں دو لاکھ افراد کو اکٹھا کر اس مجمع کے ذریعہ یہ مانگ ہوگی کہ مودی حکومت جنوری 2019 تک ایک قانون بنا کر ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ پر ایک شاندار رام مندر کی تعمیر شروع کر دے۔ بظاہر ایودھیا میں اکٹھا کیے جانے والے مجمع کا مقصد مودی حکومت پر ’ہندو‘ دباؤ بنانا ہے۔
یہ تو رہا وشوا ہندو پریشد کا بظاہر مقصد۔ لیکن جو حضرات سنگھ پریوار کی 6 دسمبر سنہ 1992 کو ایودھیا میں ہونے والی ایسی ہی ریلی سے واقف ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ آر ایس ایس کے دانت دکھانے کے کچھ اور کھانے کے کچھ اور ہوتے ہیں۔ اس وقت سنگھ نے یہ کہا تھا کہ 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں ایک ’کارسیوا‘ ہوگی جس میں کچھ پوجا پاٹھ ہوگا او ررام مندر تعمیر کی مانگ کے بعد وہاں اکٹھا ہونے والا مجمع پرامن طریقے سے واپس چلا جائے گا۔
لیکن آپ اس سے واقف ہوں گے کہ 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں ہوا کیا! سب کو یاد ہے کہ اس روز جو کارسیوا ہوئی اس میں بابری مسجد ڈھا دی گئی اور اس کی جگہ ایک چھوٹا سا رام مندر تعمیر ہو گیا جو تب سے آج تک جاری و ساری ہے۔ یعنی سنگھ پریوار والے اس سلسلے میں کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ اس لیے کم از کم مجھ کو اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوگی کہ 25 نومبر 2018 کو جو مجمع ایودھیا میں اکٹھا ہو رہا ہے، وہ پوجا کے ساتھ ساتھ ایودھیا میں ایک رام مندر کی تعمیر کا کام نہ شروع کر دے۔ یہ ممکن ہے کہ یہ کام متنازع زمین پر نہ ہو لیکن اس حصے کے باہر مندر تعمیر کا کام شروع ہو جائے اور پھر یہ اعلان ہو کہ مندر کی تعمیر کو مکمل کرنے کے لیے مودی حکومت ایک قانون پاس کرے۔
الغرض، آج یعنی 25 نومبر 2018 کو ایودھیا میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ دو روز سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ ایودھیا اور فیض آباد کی مسلم آبادی پریشان ہے اور اکثر افراد وہاں سے جان کی امان کے لیے باہر بھی جا رہے ہیں۔ ان دونوں جگہ کی خود ہندو آبادی بھی کرفیو کے خوف سے روز مرہ کا ساز و سامان اکٹھا کر رہی ہے۔ یعنی ایودھیا میں 25 نومبر کو کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اگر اشارہ ملا تو وہاں سے پیدا ہونے والے فساد کو یو پی اور دیگر جگہوں پر پھیلایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ ایودھیا میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ایک اہم سیاسی مقصد بھی ہے۔
وہ سیاسی مقصد یہ ہے کہ مودی سرکار کے ناکام ہونے کے بعد اب بی جے پی 2014 کی طرح محض مودی کے نام پر چناؤ نہیں جیت سکتی ہے۔ اب اس کو چناؤ جیتنے کے لیے رام کا سہارا بھی درکار ہے۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی چناؤ کی جو خبریں آرہی ہیں، ان سے واضح ہے کہ فی الحال ہونے والے ا سمبلی چناؤ میں بی جے پی کی حالت کافی خستہ ہے۔ اگر دسمبر میں آنے والی اسمبلی نتائج بی جے پی کے خلاف رہے تو سنہ 2019 کا لوک سبھا چناؤ مودی کے لیے جیتنا دشوار ہو جائے گا۔ اس لیے اب بی جے پی کو رام مندر یاد آرہا ہے۔
لیکن 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں ہونے والے پروگرام اور اس بار 25 دسمبر 2018 کو ہونے والے ایودھیا پروگرام میں ایک بہت اہم فرق ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت ایودھیا میں جو ہندو مجمع اکٹھا ہوا تھا وہ بے حد غصے میں تھا۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ ایودھیا میں اس وقت اکٹھا ہونے والے مجمع کے سامنے ایک بابری مسجد تھی جس کے بارے میں اس کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ مسجد بھگوان رام کی جائے پیدائش پر ان کا مندر توڑ کر بنائی گئی تھی۔
کٹے پر نمک چھڑکنے کا کام بابری مسجد ایکشن کمیٹی کر رہی تھی جو ’نعرۂ تکبیر‘ کی صداؤں کے بیچ یہ اعلان کر رہی تھی کہ وہ یعنی مسلمان اپنی جان کی قربانی دے کر بھی مسجد کا تحفظ کریں گے۔ یعنی دسمبر 1992 میں آمنے سامنے دو متضاد ہندو–مسلم فریقین کھڑے تھے، جس کے نتیجے میں ہندو رد عمل پیدا ہو رہا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غصے میں ایودھیا میں جمع ہونے والے مجمع نے مسجد ہی مسمار کر دی۔
ابھی تک اس بار ایودھیا کے تعلق سے پورا معاملہ ہندو بنام مسلمان نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن اب پوری کوشش اس بات کی ہے کہ کسی طرح سے مسلمان کو غصہ دلاؤ تاکہ وہ جذبات میں سڑکوں پر نکل پڑیں اور پھر وشو ہندو پریشد کو یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ دیکھیے مسلمان رام مندر نہیں بننے دینا چاہتا ہے۔ اسی کام کے لیے پچھلے چند دنوں سے مسلمانوں کو اْکسانے کے لیے طرح طرح سے کوششیں ہو رہی ہیں۔ مثلاً پورے یو پی میں مسلمانوں کے خلاف پوسٹر لگائے جا رہے ہیں۔ پھر اس قسم کے بیان دلوائے جا رہے ہیں کہ جن سے مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہو۔
مثلاً دو روز قبل کسی سَنت نے یہ بیان دیا کہ بابری مسجد تو گئی، اب بنارس کی گیان واپی مسجد گرانے کا وقت آگیا ہے۔ اسی طرح ابھی جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو میرے سامنے ساکشی مہاراج کا یہ بیان ہے کہ اگر دہلی کی جامع مسجد توڑی گئی تو وہاں سے مورتیاں برآمد ہوں گی۔ لب و لباب یہ کہ پچھلے ایک ہفتے سے سنگھ کے اشارے پر یہ کوشش جاری ہے کہ کسی طرح مسلمانوں میں اشتعال پیدا کر کے ان کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دو تاکہ جواب میں ہندو رد عمل پیدا ہو، اور بس پھر ایک ہندو لہر پیدا ہو جائے اور اب سے لے کر 2019 کے لوک سبھا چناؤ تک ہارتی بی جے پی کو کسی طرح چناؤ جتوا دیے جائیں۔
اس لیے اقلیتوں اور بالخصوص مسلم اقلیت کے لیے یہ بہت امتحان کا وقت ہے۔ اس وقت محض صبر و شکر سے کام لینے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ ذرا سی لغزش اور بس پھر نہ صرف سَنگھ کا کام بن جائے گا بلکہ پورے ملک میں فسادات کی ایک لہر چل پڑے گی۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ خود اقلیتوں کی صف میں میر جعفر اور میر صادق جیسے زرخرید افراد کی کمی نہیں جو ٹی وی پر اور مجمعوں میں جان بوجھ کر ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال پیدا کرنے والے بیان دے سکتے ہیں اور دے بھی رہے ہیں۔ ایسے ہر فرد یا نام نہاد لیڈر سے بے حد ہوشیار رہنے کی سخت ضرورت ہے۔
بس یوں سمجھیے کہ خواہ کوئی مولانا ہو یا پھر کوئی مسلم لیڈر، اگر ایسی حرکت کوئی بھی کرتا ہے تو وہ آپ کے مخالفین کے لیے کام کر رہا ہے۔ وہ اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح سَنگھ کی حکمت عملی کامیاب ہو اور ملک میں ہندو رد عمل پیدا ہو تاکہ بی جے پی چناؤ میں ہاری ہوئی بازی جیت جائے۔ اس لیے 25 نومبر ہی کیا، آنے والے لوک سبھا چناؤ تک صبر سے بہتر کوئی دوسری حکمت عملی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے فی الحال خاموش رہیے اور اس طوفان کو گزر جانے دیجیے۔
روزنامہ سیاست ، حیدرآباد انڈیا
♦